معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1540
عَنْ عَمْرِو ابْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ قَالَ: يَوْمًا وَقَامَ رَجُلٌ فَأَكْثَرَ الْقَوْلَ فَقَالَ عَمْرٌو: لَوْ قَصَدَ فِي قَوْلِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَقَدْ رَأَيْتُ، أَوْ قَالَ أُمِرْتُ، أَنْ أَتَجَوَّزَ فِي الْقَوْلِ، فَإِنَّ الْجَوَازَ هُوَ خَيْرٌ» (رواه ابوداؤد)
مجلس میں گفتگو ، ہنسی و مزاح ، چھینک اور جمائی وغیرہ کے بارے میں ہدایات: بےضرورت بات کو لمبا نہ کیا جائے
حضرت عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن جب کہ ایک شخص نے (ان کی موجودگی میں) کھڑے ہو کر (وعظ و تقریر کے طور پر) بات کی اور بہت لمبی بات کی، تو آپ نے فرمایا کہ: اگر یہ شخص مختصر بات کرتا تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہوتا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: میں یہ مناسب سمجھتا ہوں۔ یا آپ ﷺ نے فرمایا کہ: مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے "بات کرنے میں اختصار سے کوم لوں کیوں کہ بات میں اختصار ہی بہتر ہوتا ہے"۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
رسول اللہ ﷺنے امت کو اس بارے میں واضح ہدایات دی ہیں کہ بات چیت میں کن باتوں کا لحاظ رکھا جائے، اور ظرافت و مزاح اور کسی بات پر ہنسنے یا چھینک اور جمائی آنے کے جیسے موقعوں پر کیا رویہ اختیار کیا جائے۔ اس سلسلہ کی آپ ﷺ کی ہدایات و تعلیمات کی روح یہ ہے کہ بندہ اپنے فطری اور معاشرتی تقاضوں و وقار اور خوبصورتی کے ساتھ پورا کرے لیکن ہر حال میں اللہ کو اور اس کے ساتھ اپنی بندگی کی نسبت کو اور اس کے احکام اور اپنے عمل اور رویہ کے اُخروی انجام کو پیش نظر رکھے۔ زبان کے استعمال اور بات چیت کے بارے میں آنحضرتﷺ کے ارشادات کا کافی حصہ اسی سلسلہ معارف الحدیث کی دوسری جلد (کتاب الاخلاق) میں درج ہو چکا ہے۔ سچ اور جھوٹ، شیریں کلامی اور بدزبانی، چغل خوری و عیب جوئی یا وہ گوئی، غیبت اور بہتان وغیرہ کے متعلق احادیث وہاں گزر چکی ہیں، اس لئے گفتگو اور زبان کے استعمال کے سلسلہ میں چند باقی مضامین کی حدیثیں ہی یہاں درج کی جا رہی ہیں۔ تشریح .....تجربہ شاہد ہے کہ بہت لمبی بات سے سننے والے اکتا جاتے ہیں اور دیکھا ہے کہ بعض اوقات کسی تقریر یا وعظ سے سامعین شروع میں بہت اچھا تاثر لیتے ہیں لیکن جب بات حد سے زیادہ لمنی ہو جاتی ہے تو لوگ اکتا جاتے ہیں، اور وہ اثر بھی زائل ہو جاتا ہے۔
Top