معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1541
عَنْ بِلالِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنَ الْخَيْرِ، مَا يَعْلَمُ مَبْلَغَهَا يَكْتُبُ اللَّهُ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنَ الشَّرِّ، مَا يَعْلَمُ مَبْلَغَهَا يَكْتُبُ اللَّهُ بِهَا عَلَيْهِ سَخَطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ». (رواه فى شرح السنة روى والترمذى وابن ماجه نحوه)
منہ سے نکلنے والی کوئی بات وسیلہ فوز و فلاھ بھی ہو سکتی ہے اور موجب ہلاکت بھی
بلال بن الحارث ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: آدمی کی زبان سے کبھی خیر اور بھلائی کی کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جس کی پوری برکت اور قدر و قیمت وہ خود بھی نہیں جانتا، مگر اللہ تعالیٰ اسی ایک بات کی وجہ سے اپنے حضور میں حاضری تک کے لئے اس بندہ کے واسطے اپنی رضا طے فرما دیتا ہے۔ اور (اسی طرح) کبھی آدمی کی زبان سے شرج، کی کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جس کی برائی اور خطرناکی کی حد وہ خود بھی نہیں جانتا مگر اللہ تعالیٰ اس بات کی وجہ سے اس آدمی پر آخرت کی پیشی تک کے لئے اپنی ناراضی اور اپنے غضب کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ (شرح السنہ للبغوی) (اور ایسی ہی حدیث امام مالکؒ نے موطا میں اور امام ترمذیؒ نے اپنی جامع مین اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کی ہے)۔

تشریح
حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ اللہ اور آخرت کے انجام سے غافل و بےپروا ہو کر باتیں نہ کرے، منہ سے نکلنے والی بات ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی خاص رضا و رحمت کا مستحق بنا دے، اور (خدا پناہ میں رکھے) ایسی بھی ہو سکتی ہے جو اس کی رضا و رحمت الہی سے محروم کر کے جہنم میں پہنچا دے۔ کسی کی تعریف کرنا دراصل اس کے حق میں ایک شہادت اور گواہی ہے جو بڑی ذمہ داری کی بات ہے اور اس سے اس کا بھی خطرہ ہے کہ اس آدمی میں اعجابِ نفس اور خود پسندی پیدا ہو جائے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں سخت احتیاط کی تاکید فرمائی ہے۔ افسوس ہے کہ اس تعلیم و ہدایت سے فی زماننا ہمارے دینی حلقوں میں بھی بڑی بے پروائی برتی جا رہی ہے۔ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا
Top