معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1543
عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِينَ، فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمِ التُّرَابَ» (رواه مسلم)
کسی کی تعریف کرنے میں بھی احتیاط سے کام لیا جائے
حضرت مقداد بن الاسود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم "مداحین" (بہت زیادہ تعریف کرنے والوں) کو دیکھو تو ان کے منہ پر خاک ڈال دو۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں "مداحین" سے غالبا وہ لوگ مراد ہیں جو لوگوں کی خوشامد اور چاپلوسی کےلئے اور پیشہ وارانہ طور پر ان کی مبالغہ آمیز تعریفیں اور ان کی قصیدہ خوانی کیا کرتے ہیں، اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب ایسے لوگوں سے سابقہ پڑے اور وہ تمہارے منہ پر تمہاری مبالغہ آمیز تعریفیں کریں تو ان کے منہ پر خاک ڈال دو۔ اس کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اظہارِ ناراضگی کے طور پر ان کے منہ پر حقیقۃً خاک ڈال دو۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ انہیں کسی قسم کا انعام و اکرام کچھ نہ دو گویا "منہ پہ خاک ڈالنے" کا مطلب انہیں کچھ نہ دینا اور محروم و نامراد واپس کر دینا ہے اور بلاشبہ یہ بھی ایک محاورہ ہے۔ تیسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان مداحین سے کہہ دو کہ تمہارے منہ میں خاک! گویا یہ کہنا کہ منہ میں خاک ڈالنا ہے۔ حدیث کے راوی حضرت مقداد بن الاسود سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے ان کی موجودگی میں حضرت عثمان ؓ کے سامنے ان کی تعرید کی تو انہوں نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے مٹی زمین سے اُٹھا کے اس شخص کے منہ پر پھینک ماری۔ زمانہ مابعد کے بعض اکابر سے بھی اسی طرح کے واقعات مروی ہیں۔ واضح رہے کہ اگر اچھی نیت اور کسی چینی مصلحت سے کسی بندہ خدا کی سچی تعریف اس کے سامنے یا اس کے پیچھے کی جائے اور اس کا خطرہ نہ ہو کہ وہ اعجاب نفس اور اپنے بارے میں کسی غلط قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جائے گا تو ایسی تعریف کی ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ ان شاء اللہ اچھی نیت کے مطابق وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہو گا، خود رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کی اور بعض صحابہ کرام نے بعض دوسرے صحابیوں کی جو روح و تعریف کبھی کی ہے وہ اسی قبیل سے ہے۔
Top