معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1555
عَنْ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَقُومُ مِنْ مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ الصُّبْحَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ نَامَ وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَيَأْخُذُونَ فِي أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (رواه مسلم)
ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز جس جگہ پڑھتے تھے، آفتاب طلوع ہونے تک وہاں سے نہیں اٹھتے تھے، پھر جب آفتاب طلوع ہو جاتا تو کھڑے ہو جاتے۔ اور (اس اثناء میں) آپ ﷺ کے صحابہ زمانہ جاہلیت کی باتیں (بھی) کیا کرتے اور اس سلسلے میں خوب ہنستے اور رسول اللہ ﷺ بس مسکراتے رہتے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کبھی کبھی مسجد نبوی میں اور رسول اللہ ﷺ کی مجلس مبارک میں بھی زمانہ جاہلیت کی ایسی لغویات و خرافات کا بھی تذکرہ کیا کرتے تھے جن پر خوب ہنسی آتی تھی۔ اور جامع ترمذی کی اسی حدیث کی روایت میں یہ الفاظ مزید ہیں۔ "وَيَتَنَاشَدُوْنَ الشِّعْرَ" (یعنی اس سلسلہ گفتگو میں اشعار بھی پڑھے اور سنائے جاتے تھے) اور رسول اللہ ﷺ یہ سب کچھ سنتے اور اس پر تبسم فرماتے تھے۔ ناچیز راقم السطور عرض کرتا ہے کہ اگر آنحضرتﷺ اپنے اصحاب کرام کے ساتھ اس طرح کی بےتکلفی کا برتاؤ نہ کرتے تو ان حضرات پر آپ ﷺ کا ایسا رعب چھایا رہتا جو استفادہ میں رکاوٹ بنتا۔ حضرت مشائخ صوفیہ کی اصطلاح میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ حضور اقدس ﷺ کا نزول تھا، اس کے بغیر مقصد رسالت کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی۔ صحابہ کرام کے باہم ہنسنے ہنسانے کے اس تذکرہ کے ساتھ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمر اور ایک بزرگ تابعی بلال بن سعد کے دو بیان پڑھ لینا بھی ان شاء اللہ موجب بصیرت ہو گا۔ یہ دونوں بیان مشکوٰۃ المصابیح میں "شرح السنہ" کے حوالے سے نقل کئے گئے ہیں۔ قتادہ تابعی نے بیان فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہنسا بھی کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: نَعَمْ وَالإِيمَانُ فِي قُلُوبِهِمْ أَعْظَمُ مِنَ الْجَبَلِ. ہاں۔ بےشک! وہ حضرات (ہنسنے کے موقع پر) ہنستے بھی تھے لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑوں سے عظیم تر ہوتا تھا۔ (یعنی ان کا ہنسنا غافلین کا سا ہنسنا نہیں ہوتا تھا جو قلوب کو مردہ کر دیتا ہے) اور بلال بن سعد کا بیان ہے: أَدْرَكْتُهُمْ يَشْتَدُّونَ بَيْنَ الأَغْرَاضِ، وَيَضْحَكُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَإِذَا كَانَ اللَّيْلُ، كَانُوا رُهْبَانًا میں نے صحابہ کرام کو دیکھا ہے وہ مقررہ نشانیوں کے درمیان دوڑا بھی کرتے تھے (جس طرح بچے اور نوجوان کھیل اور مشق کے لئے دوڑ میں مقابلہ کیا کرتے ہیں) اور باہم ہنستے ہنساتے بھی تھے، پھر جب رات ہو جاتی تو بس درویش ہو جاتے۔
Top