معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1605
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ أَنَّ بَرَكَةَ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: بَرَكَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَهُ وَالْوُضُوءُ بَعْدَهُ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
کھانے پینے کے آداب: کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا
حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے تورات میں پڑھا کہ کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونا باعث برکت ہے۔ میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: کھانے سے پہلے اور اس کے بعد ہاتھ اور منہ کا دھونا باعث برکت ہے۔ (جامع ترمذی، ابو داؤد)

تشریح
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت کے لئے اشیاء خورد و نوش کے بارے میں حلت و حرمت کے احکام بھی بیان فرمائے اور کھانے پینے کے آداب بھی بتلائے جن کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے، یا ان میں طبی مصلحت ملحوظ ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کے قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعہ کھانے پینے کے عمل کو جو بظاہر خاصی مادی عمل ہے اور نفس حیوانی کے تقاضے سے ہوتا ہے، روحانی اور نورانی اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ کی گزشتہ تین قسطوں میں جو احادیث درج ہوئیں ان کا تعلق اشیاء خوردنی و نوشیدنی کی حلت و حرمت سے تھا، آگے وہ حدیثیں درج کی جا رہی ہیں جن میں آنحضرتﷺ نے کھانے پینے کے آداب کی تلقین فرمائی ہے۔ ان حدیثوں میں ایسے ارشادات موجود ہیں جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں کھانے پینے کے جن آداب کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے ان کا درجہ استحباب اور استحسان کا ہے، اس لئے اگر اس پر رعمل نہ ہوا تو کوئی گناہ کی بات نہ ہو گی۔ واللہ اعلم۔ تشریح ..... قرآن پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ جو تعلیم و ہدایت اگلے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ آتی رہی اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ اس کی تکمیل فرمائی ہے (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ الخ) اس کی روشنی میں حدیث کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تورات میں آدابِ طعام کے سلسلے میں صرف کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کو باعث برکت بتلایا گیا تھا اور اس کی ترغیب دی گئی تھی، رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کھانے سے پہلے بھی ہاتھ اور منہ دھو لینے (یعنی کلی کر لینے) کی ترغیب دی گئی اور آپ ﷺ نے بتلایا کہ یہ بھی باعث برکت ہے۔ برکت بڑا وسیع المعنیٰ لفظ ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس حدیث اور کھانے میں برکت کے سلسلہ کی بعض دوسری احادیث کا حوالہ دے کر جو کچھ فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کسی کھانے میں برکت ہونے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ غذا کا جو اصل مقصد ہے وہ اچھی طرح حاصل ہو، کھانا رغبت اور لذت کے ساتھ کھایا جائے، طبیعت کو سیری نصیب ہو، جی خوش ہو اور دلجمعی حاصل ہو اور تھوڑی سے مقدار کافی ہو اور اس سے صالح خون پیدا ہو کر جزو بدن بنے اور اس کا نفع دیرپا ہو، پھر اس سے نفس کی طغیانی اور غفلت نہ پیدا ہو بلکہ شکر اور ا طاعت کی توفیق ملے۔ دراصل یہ اس حقیقت کے آثار ہیں جس کو حدیث میں برکت کہا گیا ہے، اور کنز العمال میں معجم اوسط طبرانی کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونا دافع فقر ہے اور انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے"۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی بالکل ظاہر ہے کہ صفائی اور اصولِ صحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہاتھ اور منہ جو کھانے کے آلے ہیں، کھانے سے پہلے بھی ان کو دھو کر اچھی طرح ان کی صفائی کر لی جائے۔ اور پھر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بھی دھو کر صاف کر لیا جائے۔ (1) حضرت سلمان فارسی کی اس حدیث میں بلکہ اس سلسلہ کی اکثر دوسری حدیثوں میں بھی ہاتھ اور منہ دھونے کے لئے "وضو" کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے اس سے وہ وضو مراد نہیں جو نماز کے لئے کیا جاتا ہے، بلکہ بس ہاتھ منہ دھونا ہی مراد ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ نماز کا وضو تو وہ ہے جو معلوم و معروف ہے اور کھانے کا وضو بس یہ ہے کہ ہاتھ اور منہ جو کھانے میں استعمال ہوتے ہیں ان کو دھو لیا جائے اور ان کی صفائی کر لی جائے، بعض حدیثوں میں اس کی تصریح بھی ہے۔
Top