معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1614
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا أُتِيَتْ بِثَرِيدٍ، أَمَرَتْ بِهِ فَغُطِّيَ حَتَّى يَذْهَبَ فَوْرَةُ وَدُخَانُهُ، وَتَقُولُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «هُوَ أَعْظَمُ لِلْبَرَكَةِ» (رواه الدارمى)
کھانا زیادہ گرم نہ کھایا جائے
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ ان کا یہ طریقہ تھا کہ جب ثرید پکا کر ان کے پاس لائی جاتی تو وہ ان کے حکم سے اس وقت تک ڈھکی رہتی کہ اس کی گرمی کا جوش اور تیزی ختم ہو جاتی (اس کے بعد وہ کھائی جاتی) اور (اپنے اس طرزِ عمل کی سند میں) وہ فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اس طرح (کچھ ٹھنڈا کر کے) کھانا زیادہ برکت کا باعث ہوتا ہے۔ (مسند دارمی)

تشریح
ثرید ایک معروف و مرغوب کھانا ہے، جس کا عہد نبویﷺ میں زیادہ رواج تھا، ایک خاص طریقے سے گوشت کے ساتھ روٹی کے ٹکڑے پکا کر تیار کیا جاتا تھا۔ اس روایت میں اگرچہ خاص ثرید کا ذکر ہے (کیوں کہ وہاں وہی زیادہ پکتا تھا) لیکن ظاہر ہے کہ حدیثِ پاک میں جو تعلیم دی گئی ہے وہ ہر پکے ہوئے کھانے اے متعلق ہے کہ زیادہ گرم نہ کھایا جائے۔ اس کو موجب برکت بتلایا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ برکت کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ غذا کا جو مقصد ہے وہ اس طرح کھانے سے بہتر طریقہ پر حاصل ہوتا ہے۔ اصولِ طب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کھانا زیادہ گرم نہ کھایا جائے۔ کنز العمال میں مختلف کتب حدیث کے حوالے سے متعدد صحابہ کرام کی روایت سے مختلف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کی یہ ہدایت روایت کی گئی ہے کہ کھانا ٹھنڈا کر کے کھایا جائے۔ اس میں برکت ہے۔ (کنز العمال ص ۳، ۸، ج ۸)
Top