معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1621
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ، فَامْقُلُوهُ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ دَاءً، وَفِي الْآخَرِ شِفَاءً، فَإِنَّهُ يَتَّقِي بِجَنَاحِهِ الَّذِي فِيهِ الدَّاءُ فَلْيَغْمِسْهُ كُلُّهُ» (رواه ابوداؤد)
اگر کھانے میں مکھی گر جائے
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جب کسی کے کھانے پینے کے برتن میں مکھی گر جائے تو اس کو غوطہ دے کر نکال دو، کیونکہ اس کے دو بازوؤں میں سے ایک میں بیماری (پیدا کرنے والا مادہ) ہوتا ہے اور دوسرے میں (اس بیماری کے اثر کو (دفع کر کے) شفا دینے والا مادہ ہوتا ہے، اور وہ اپنے اس بازو سے جس میں بیماری والا مادہ ہوتا ہے بچاؤ کرتی ہے، (یعنی جب کسی چیز میں گرتی ہے تو اس کے بل گرتی ہے اور دوسرے بازو کا بچانا چاہتی ہے) تو کھانے والے کو چاہئے کہ مکھی کو غوطہ دے کر نکال دے۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
یہ ان حدیثودں میں سے ہے جو اس زمانے میں بہت سے لوگوں کے لئے ایمان کی آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں، حالانکہ اگر فطرت کے اسرار و حکمت کے اصولوں اور تجربوں کی روشنی میں غور کیا جائے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو خلاف قیاس یا مستبعد ہو، بلکہ جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ دراصل حکمت ہی کی بات ہے۔ یہ ایک معلوم و مسلم حقیقت ہے کہ بہت سے دوسرے حشرات الارض کی طرح مکھی میں بھی ایسا مادہ ہوتا ہے جس سے بیماری پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کی فطرت اور طبیعت میں یہ بات رکھی ہے کہ اس کے اندر جو خراب اور زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں طبیعت مدّبرہ ان کو خارجی اعضاء کی طرف پھینک دیتی ہے۔ اس لئے بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اندر کے اس طرح کے فاسد مادہ کو اس کی طبیعت اس کے بازو کی طرف پھینک دیتی ہو، کیوں کہ وہی اس کا خارجی عضو ہے اور دونوں بازوؤں میں سے بھی خاص اس بازو کی طرف پھینکتی ہو جو نسبتاً کمزور اور کم کام دینے والا ہو، (جس طرح ہمارے داہنے ہاتھ کے مقابلہ میں بایاں ہاتھ) اور ہر جانور کی یہ بھی فطرت ہے کہ جب اس کو کوئی خطرہ پیش آئے تو وہ زیادہ کام آنے والے اعلیٰ و اشرف عضو کو اس سے بچانے کی کوشش کرے، اس لئے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ مکھی جب گرے تو اس بازو کو بچانے کی کوشش کرے جو خراب مادہ سے محفوظ اور نسبتاً اشرف ہو۔ اور جن لوگوں نے اللہ کی مخلوق کے احوال اور ان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے عجائبات پر غور کیا ہے۔ انہوں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ جہاں بیماری کا سامان ہے وہیں اس کے علاج کا بھی سامان ہے۔ اس لئے یہ بھی بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اگر ایک بازو میں کوئی مضر اور زہریلا مادہ تو دوسرے بازو میںٰ اس کا تریاق اور شفاء کا مادہ ہو۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ کی یہ تعلیم بالکل اصولِ حکمت کے مطابق ہے۔ بلکہ دراصل آپ ﷺ کی اس ہدایت کا تعلق دوسری بہت ہدایات کی طرح تحفظِ صحت کے باب سے ہے، اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے وہ کوئی فرض یا واجب نہیں ہے جس پر عمل نہ کرنا معصیت کی بات ہو، بلکہ ایک طرح کی طبی رہنمائی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (ان سطور میں حدیث کی تشریح کے سلسلہ میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ بھی بنیادی طور پر "حجۃ اللہ البالغہ" ہی سے ماخوذ ہے)۔
Top