معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1637
عَنْ أَبِي مَطَرٍ، أَنَّ عَلِيًّا اشْتَرَى ثَوْبًا بِثَلاثَةِ دَرَاهِمَ فَلَمَّا لَبِسَهُ قَالَ: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنَ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ، وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي» ثُمَّ قَالَ: «هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ» (رواه احمد)
لباس کے احکام و آداب: لباس نعمت خداوندی اور اس کا مقصد
بو مطر تابعی سے روایت ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے تین درہم میں کپڑا خریدا اور جب اسے پہنا تو کہا: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنَ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ، وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي» حمد و شکر ہے اس اللہ کے لئے جس نے مجھے یہ لباس زینت عطا فرمایا جس سے میں لوگوں میں آرائش حاصل کرتا ہوں اور اپنی ستر پوشی کرتا ہوں۔ پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ (کپڑا پہن کر) اسی طرح ان ہی الفاظ میں اللہ کی حمد و شکر کرتے تھے۔ (مسند احمد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے اور کھانے پینے وغیرہ زندگی کے سارے معمولات کے بارے میں احکام و آداب کی تعلیم دی اور بتلایا کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، یہ صحیح ہے اور یہ غلط، یہ مناسب ہے اور یہ نامناسب، اسی طرح لباس اور کپڑے کے استعمال کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے واضح ہدایات دیں۔ اس باب میں آپ کی تعلیمات و ہدایات کی اساس و بنیاد سورہ اعراف کی یہ آیت ہے۔ (يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ الاعراف، ع: ۳) اے فرزندانِ آدم ہم نے تم کو پہننے کے کپڑے عطا کئے جن سے تمہاری ستر پوشی ہو اور تحمل و آسائش کا سامان اور تقوے والا لباس تو سراسر خیر اور بھلائی ہے۔ اس آیت میں لباس کے دو خاص فائدے ذکر کئے گئے ہیں۔ ایک ستر پوشی یعنی انسانی جسم کے ان حصوں کو چھپانا جن پر غیروں کی نظر نہیں پڑنی چاہئے اور دوسرے زینت و آرائش یعنی یہ کہ دیکھنے میں آدمی بھلا اور آخر آراستہ معلوم ہو اور جانوروں کی طرح ننگ دھڑنگ نہ پھرے۔ آخر میں فرمایا گیا ہے: "وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ" یعنی اللہ کے نزدیک اور فی الحقیقت وہ لباس اچھا ہے اور سراسر خیر ہے جو خدا ترسی اور پرہیزگاری کے اصول سے مطابقت رکھتا ہو، اس میں اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو، بلکہ اس کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق ہو۔ ایسا ہر لباس بلاشبہ سراسر خیر و نعمت اور شکر کے ساتھ اس کا استعمال قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس سلسلہ کے ارشادات اور ذاتی معمولات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باب کی آپ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کا بنیادی نقطہ یہی ہے کہ لباس ایسا ہو جس سے ستر پوشی کا مقصد حاصل ہو اور دیکھنے میں آدمی باجمال اور باوقار معلوم ہو۔ نہ تو ایسا ناقص ہو کہ ستر پوشی کا مقصد ہی پورا نہ ہو اور نہ ہی ایسا گندہ اور بےتکا ہو کہ بجائے زیب و زینت کے آدمی کی صورت بگاڑ دے، اور دیکھنے والوں کے دلوں میں تنفر و توحش پیدا ہو۔ اس طرح یہ کہ اارائش و تحمل کے لئے افراط اور بےجا اسراف بھی نہ ہو۔ علیٰ ہذا شان و شوکت کی نمائش اور برتری کا اظہار و تفاخر بھی مقصود نہ ہو۔ جو مقام عبدیت کے بالکل ہی خلاف ہے۔ اسی طرح یہ کہ مرد ریشمی کپڑا استعمال نہ کریں، یہ سونے چاندی کے زیورات کی طرح عورتوں کے لئے مخصوص ہے،اور یہ کہ مرد خاص عورتوں والا لباس پہن کر نسوانی صورت نہ بنائیں اور عورتیں مردوں والے مخصوص کپڑے پہن کر اپنی نسوانی فطرت پر ظلم نہ کریں۔ اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ جن بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو انہیں چاہئے کہ اس طرح رہیں اور ایسا لباس پہنیں جس سے محسوس ہو کہ ان پر ان کے رب کا فضل ہے، یہ شکر کا ایک شعبہ ہے لیکن بےجا تکلف و اسراف سے پرہیز کریں، اسی کے ساتھ اس کا بھی لحاظ رہے کہ غریب و نادار بندوں کی دل شکنی اور ان کے مقابلہ میں تفوق و بالا تری کی نمائش نہ ہو۔ نیز یہ کہ ہر لباس کو اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ سمجھیں اور اس کے شکر کے ساتھ استعمال کریں۔ بلاشبہ ان احکام و ہدایات کی تعمیل کے ساتھ ہر لاس کا استعمال ایک طرح کی عبادت اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا وسیلہ ہو گا۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے: تشریح ..... جامع ترمذی میں قریب قریب اسی مضمون کی حدیث حضرت عمر ؓ سے بھی مروی ہے، ان دونوں حدیثوں سے اور ان کے علاوہ بھی متعدد احادیث سے معلوم ہوا کہ لباس اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کا اصل مقصد ستر پوشی اور تجمل و آرائش ہے۔
Top