معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1655
عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْمَسْجِدِ. فَدَخَلَ رَجُلٌ ثَائِرَ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بِيَدِهِ. كَأَنَّهُ يَعْنِي إِصْلاَحَ شَعَرِ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ. فَفَعَلَ الرَّجُلُ، ثُمَّ رَجَعَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «أَلَيْسَ هذَا خَيْراً مِنْ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدُكُمْ ثَائِرَ الرَّأْسِ كَأَنَّهُ شَيْطَانٌ؟». (رواه مالك)
ڈاڑھی اور سر کے بالوں کی خبرگیری اور درستی کی ہدایت
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے، ایک آدمی مسجد میں آیا، اس کے سر اور داڑھی کے بال بالکل بکھرے ہوئے (اور بےتکے) تھے۔ حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کو اشارہ فرمایا، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے سر اور داڑھی کے بالوں کو ٹھیک کرائے، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور پھر لوٹ کر آ گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ (یعنی تمہارا سر اور ڈاڑھی کے بالوں کو درست کر کے آنا) اس سے بہتر نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی سر کے بال بکھیرے ہوئے ایسی (وحشیانہ) صورت میں آئے کہ گویا وہ شیطان ہے۔ (موطا امام مالک)

تشریح
ان حدیثوں سے ان اہل تقشف کے خیال کی واضح تغلیظ ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ خدا کے طالبوں اور آخرت کی فکر رکھنے والوں کو اپنی صورت و ہیئت اور لباس کے حسن و قبح سے بےپروا ہو کر میلا کچیلا، پراگندہ حال اور پراگندہ بال رہنا چاہئے اور صفائی ستھرائی، صورت و لباس کو سنوارنے کی فکر اور اس میں جمال پسندی ان کے نزدیک گویا دنیا داری کی بات ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مزاج سے ناواقف ہیں۔ ہاں صورت و لباس وغیرہ کے بناؤ سنوار کا حد سے زیادہ اہتمام اور اس کے لئے فضول و بےجا تکلفات بھی ناپسند اور مزاجِ شریعت کے خلاف ہیں، جیسا کہ آگے آنے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ سے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کا حاصل یہی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اپنائی جائے۔ اوپر جو حدیثیں مذکور ہوئی جن میں اچھا اور صاف ستھرا لباس استعمال کرنے اور شکل و صورت کی اصلاح اور سر اور داڑھی کے بالوں وغیرہ کو درست رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، جیسا کہ ان مضامین سے ظاہر ہے، ان سب سے مخاطب وہی لوگ تھے جو اس معاملے میں تفریط میں مبتلا تھے اور جنہوں نے اپنے حلیے بگاڑ رکھے تھے۔ آج بھی جن کا یہ حال ہو ان کو رسول اللہ ﷺ کے ان ارشاادات سے ہدایت حاصل کرنا چاہئے کہ اس کے برعکس جو لوگ اس بارے میں افراط میں مبتلا ہوں اور لباس اور ظاہری شکل و صورت کے بناؤ سنگار کو حد سے زیادہ اہمیت دیں، اور اسی کر برتری اور کمتری کا معیار سمجھنے لگیں ان کو آگے درج ہونے والی احادیث سے ہدایت اور روشنی حاصل کرنی چاہئے۔ ان حدیثوں کے مخاطب دراصل ایسے ہی لوگ ہیں۔
Top