معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1670
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى كِسْرَى، وَقَيْصَرَ، وَالنَّجَاشِيِّ، فَقِيلَ: إِنَّهُمْ لَا يَقْبَلُونَ كِتَابًا إِلَّا بِخَاتَمٍ، «فَصَاغَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا حَلْقَتُهُ فِضَّةً، نُقِشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ» (رواه مسلم) (وفى رواية للبخارى كَانَ نَقْشُ الخَاتَمِ ثَلاَثَةَ أَسْطُرٍ مُحَمَّدٌ سَطْرٌ، وَرَسُولُ سَطْرٌ، وَاللَّهِ سَطْرٌ)
انگشتری اور مہر کے بارے میں حضور ﷺ کا طرز عمل
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ: شاہِ فارس کسریٰ اور شاہِ روم قیصر اور شاہِ حبشہ نجاشی کو خطوط لکھائیں (اور ان کو اسلام کی دعوت دیں) تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یہ حکمران لوگ مہر کے بغیر خطوط کو تسلیم نہیں کرتے، تو حضور ﷺ نے مہر بنوائی جو چاندی کی انگوٹھی تھی، اس میں نقش تھا: مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ .................................................... (صحیح مسلم) (اور اسی حدیث کی صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ مُہر میں تین سطریں تھیں، ایک سطر میں "محمد" اور دوسری سطر میں "رسول" اور تیسری سطر میں "اللہ")

تشریح
صحیح روایات سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ۶؁ھ کے آخر میں سفر حدیبیہ سے واپسی کے بعد اس وقت کی دنیا کے بہت سے مشہور بادشاہوں اور حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھائے تھے۔ اسی وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ جب آپ ﷺ نے ان خطوط کے لکھانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو بعض صحابہ کرام نے جو ان حکومتوں کے طور طریقوں سے کچھ باخبر تھے عرض کیا کہ ان خطوط پر حضور ﷺ کی مہر ہونا ضروری ہے، یہ حکمران لوگ مہر کے بغیر کسی خط کو کوئی اہمیت نہیں دیتے (گویا ایسے خطوط ان کے پاس ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتے ہیں) حضور ﷺ نے یہ مشورہ قبول فرما لیا اور چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا لی جس کے نگینہ میں "محمد رسول اللہ" کندہ تھا۔ صحیح بخاری کی روایت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ تینوں لفظ تین سطروں میں نیچے اوپر لکھے گئے تھے۔ اس طرح (محمد رسول اللہ) یہی آپ ﷺ کی مہر آپ ﷺ کی انگوٹھی تھی۔ روایات میں بائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی میں پہننے کا بھی ذکر آتا ہے اور داہنے ہاتھ میں بھی، گویا کبھی آپ ﷺ داہنے ہاتھ میں پہن لیتے تھے اور کبھی بائیں ہاتھ میں۔
Top