معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1679
عَنْ جَرْهَدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْفَخِذَ عَوْرَةٌ؟» (رواه الترمذى وابوداؤد)
ستر اور پردے کے بارے میں ہدایات: ضروری ستر
حضرت جرہد بن خویلد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ران (بھی) ستر میں شامل ہے۔ (یعنی اس کا کھولنا جائز نہیں)۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

تشریح
انسان کی معاشی زندگی میں ستر اور پردے کے مسئلہ کی بھی خاص اہمیت ہے اور یہ ان خصائص میں سے جن میں انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہے۔ خالقِ کائنات نے دوسرے حیوانات میں حیا اور شرم کا وہ مادہ نہیں رکھا جو انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے اس لئے حیوانات اپنے جسم کے کسی حصے کو اور اپنے کسی فعل کو چھپانے کی وہ کوشش نہیں کرتے جو انسان کرتا ہے، اور جس کے لئے وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے۔ بہرحال ستر اور پردہ اصولی درجہ میں انسانی فطرت کا تقاضا ہے اسی لئے تمام اقوام و ملل اپنے عقائد و نظریات اور رسوم و عادات کے بہت سے اختلاف کے باوجود بنیادی طور پر اس پر متفق ہیں کہ آدمی کو دوسرے حیوانات کی طرح ننگ دھڑنگ نہیں رہنا چاہئے۔ اسی طرح یہ بات بھی تمام انسانی گروہوں سے مسلمات بلکہ معمولات میں سے ہے کہ اس بارے میں عورت کا درجہ مرد سے بھی بلند ہے، گویا جس طرح ستر اور پردے کے باب میں انسانوں کو عام حیوانات کے مقابلے میں امتیاز و تفوق حاصل ہے اسی طرح اس معاملہ میں عورت کو مرد کے مقابلہ میں فوقیت اور برتری حاصل ہے، کیوں کہ اس کی جسمانی ساخت ایسی ہے کہ اس میں جنسی کشش جو بہت سے فتنوں کا ذریعہ بن سکتی ہے مردوں سے کہیں زیادہ ہے، اسی لئے ان کے پیدا کرنے والے نے ان میں حیاء کا جذبہ بھی مردوں سے زیادہ رکھا ہے۔ بہرحال اولادِ آدم کے لئے ستر اور پردہ بنیادی طور پر ان کی فطرت کا تقاضا اور پوری انسانی دنیا کے مسلمات میں سے ہے۔ پھر جس طرح انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہدایت کی تکمیل اللہ کے آخری نبی سیدنا حضرت محمدﷺ کے ذریعہ ہوئی اسی طرح اس شعبہ میں بھی جو ہدایات آپ ﷺ نے دیں وہ بلاشبہ اس شعبہ کی تکمیلی ہدایات ہیں۔ اس باب میں اصولی و بنیادی احکام تو آپ ﷺ کی لائی ہوئی کتابِ ہدایت قرآن مجید ہی میں دئیے گئے ہیں۔ سورہ اعراف کے شروع ہی میں جہاں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور انسانی دنیا کے آغاز کا ذکر ہے فرمایا گیا ہے کہ: "نسلِ آدمؑ کو ستر چھپانے کی ہدایت اسی ابتدائی دور میں دے دی گئی تھی اور آگاہ کر دیا گیا تھا کہ اس بارے میں تم شیطان کے اغوا کا شکار نہ ہو جانا وہ تمہیں انسانیت کی بلند کے بلند سطح سے گرا کر جانوروں کی طرح ننگا اور بےپردہ کرنے کی کوشش کرے گا"۔ پھر سورہ نور اور سورہ احزاب میں خاص کر عورتوں کے پردے کے بارے میں احکام دئیے گئے۔ مثلاً یہ کہ ان کی اصل جگہ اپنا گھر ہے، لہذا بے ضرورت سیر سپاٹے یا اپنی نمائش کے بارے میں احکام دئیے گئے۔ مثلاً یہ کہ ان کی اصل جگہ اپنا گھر ہے، لہذا بےضرورت سیرسپاٹے یا اپنی نمائش کے لئے گھروں سے باہر نہ گھومیں۔ اور اگر ضرورت سے نکلیں (جس کی اجازت ہے) تو پورے پردے والا لباس پہن اوڑھ کر نکلیں۔ اور گھروں میں شوہروں کے علاوہ گھر کے دوسرے لوگوں یا آنے جانے والے عزیزوں، قریبوں کے سامنے لباس اور پردے کے بارے میں ان مقررہ حدود کی پابندی کریں۔ اور مردوں کو چاہئے کہ اپنے اہلِ قرابت یا دیگر اہلِ تعلق کے گھروں میں اچانک یا بلااطلاع اور اجازت کے نہ جائیں۔ نیز مرد عورتوں کو اور عورتیں مردوں کو دیکھنے، تاکنے کی کوشش نہ کریں، بلکہ سامنا ہو جائے تو نگاہین نیچی کر لیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن کو عقلِ سلیم دی ہے اور ان کی فطرت مسخ نہیں ہوئی ہے، وہ اگر غور کریں تو ان شاء اللہ انہیں اس میں شبہ نہ ہو گا کہ یہ احکام انسان کے جذبہ حیا کے فطری تقاضوں کی تکمیل بھی کرتے ہیں اور ان سے ان شیطانی اور شہوانی فتنوں کا دروازہ بھی بند ہو اجتا ہے جو زندگی کو گندہ اور اخلاق کو برباد کرتے ہیں، اور کبھی کبھی بڑے شرمناک اور گھناؤنے نتائج کا باعث بن جاتے ہین۔ اس تمہید کے بعد اور اس کی روشنی میں اس باب سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات پڑھئے: تشریح ..... انسانی جسم کے جو حصے عرف میں شرم گاہ کہلاتے ہیں ان کے بارے میں تو ہر آدمی حتیٰ کہ خدا کے اور کسی دین و مذہب کے نہ ماننے والے بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا ستر یعنی چھپانا ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ انسانی جسم میں صرف شرم گاہ اور اس کے قریبی حصے ہی نہیں بلکہ ران تک ستر میں شامل ہے جس کا چھپانا ضروری ہے۔ یہ گویا ستر کے بارے میں تکمیلی تعلیم اور ہدایت ہے۔ اس حدیث میں فخذ (ران) کو عورۃ فرمایا گیا ہے۔ عورۃ کے لفظی معنی ہیں، چھپانے کی چیز، جس کا کھلنا شرم وع حیاء کے خلاف ہو۔
Top