معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1715
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ أَهْلَهُ قَالَ بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدَّرْ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ، لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا. (رواه البخارى ومسلم)
مباشرت سے متعلق ہدایات اور احکام: دعا
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی بیوی کے پاس جاتے وقت اللہ کے حضور میں یہ عرض کرے: "بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَ جَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا" (بسم اللہ! اے اللہ تو شیطان کے شر سے ہم کو بچا اور ہم کو جو اولاد دے اس کو بھی بچا) تو اگر اس مباشرت کے نتیجہ میں ان کے لئے بچہ مقدر ہو گا تو شیطان کبھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا اور وہ ہمیشہ شرِ شیطان سے محفوظ رہے گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
یہ حدیث معارف الحدیث "کتاب الدعوات" میں بھی ذکر کی جا چکی ہے اور وہاں تشریح میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی "اشعۃ اللمعات" کے حوالہ سے ان کا یہ عارفانہ نکتہ بھی نقل کیا جا چکا ہے کہ اس حدیث سے مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مباشرت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی دعا نہ کی اور خدا سے غافل رہ کر جانوروں کی طرح شہوتِ نفس کا تقاضا پورا کر لیا تو ایسی مباشرت سے جو اولاد پیدا ہو گی وہ شیطان کے شر سے محفوظ نہیں رہے گی۔ اس کے آگے شیخ نے فرمایا ہے کہ "اس زمانہ میں پیدا ہونے والی نسل کے احوال، اخلاق، عادات جو عام طور سے خراب و برباد ہیں اس کی خاص بنیاد یہی ہے"۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ کی ان ہدایات کی روشنی میں اور ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔
Top