معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1724
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ فَيَعْدِلُ وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ هَذِهِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلاَ تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلاَ أَمْلِكُ. (رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى وابن ماجه والدارمى)
بیویوں کے ساتھ برتاؤ میں عدل و مساوات
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سب بیویوں کے ہاں باری باری رہتے تھے اور پورے عادل کا برتاؤ فرماتے تھے اور اس کے ساتھ اللہ سے عرض کرتے تھے کہ اے میرے اللہ یہ میری تقسیم ہے ان معاملات میں اور اس عملی برتاؤ میں جو میرے اختیار میں ہیں پس میری سرزنش اور محاسبہ نہ فرما دل کے اس معاملے میں جو تیرے ہیں میرے اختیار میں نہیں۔ (جامع ترمذی سنن ابی داؤد سنن نسائی سنن ابن ماجہ مسند الدارمی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جہاں تک رہن سہن اور عملی برتاؤ کا تعلق ہے اس میں رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ مثالی اور کامل عدل فرماتے تھے جو معاملہ اور برتاؤ کیسی ایک کے ساتھ تھا وہ سب کے ساتھ تھا لیکن قلبی محبت اور دل کا میلان ایسی چیز ہے جس پر کسی بشر کا قابل نہیں آپ ﷺ کا بھی قابو نہیں تھا اس کا حال یکساں نہیں تھا اس کے لیے آپ ﷺ اللہ تعالی کے حضور میں اس طرح معذرت فرماتے تھے کہ اے اللہ یہ چیز میرے اختیار میں نہیں ہے آپ کے اختیار میں ہے اس پر مواخذہ اور محاسبہ نہ ہو یہ آپ ﷺ کا کمال عبدیت تھا ورنہ قرآن مجید میں فرما دیا گیا ہے ..... "لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا"
Top