معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1725
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَبْغَضُ الْحَلاَلِ إِلَى اللَّهِ الطَّلاَقُ. (رواه ابوداؤد)
طلاق اور عدت: طلاق سخت نا پسندیدہ فعل
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کے حلال اور جائز چیزوں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ مبغوض طلاق ہے۔ (سنن ابی داود)

تشریح
جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے نکاح اور شادی کا مقصد یہ ہے کہ مردوعورت یہ رشتہ قائم کرکے اور باہم وابستہ ہوکر عفت و پاکبازی کے ساتھ مسرت و شادمانی کی زندگی گزار سکیں اور جس طرح وہ خود کسی کی اولاد ہیں اسی طرح ان سے بھی اولاد کا سلسلہ چلے اور وہ اولاد ان کے لیے دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اور آخرت میں حصول جنت کا وسیلہ بنے اور ان مقاصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں میں محبت اور خوشگواری کا تعلق رہے رسول اللہ ﷺ نے شوہروں اور بیویوں کو باہم برتاؤ کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کا محور اور مرکزی نقطہ یہی ہے اس کے باوجود کبھی ایسے حالات ہوجاتے ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان سخت تلخی اور ناگواری پیدا ہوجاتی ہے اور ساتھ رہنا بجائے راحت و مسرت کے مصیبت بن جاتا ہے ایسے وقت کے لئے بھی رسول اللہ ﷺ کی طرف تعلیم و ترغیب یہی ہے کہہ ۃروصو دونوں ناگواریوں کو جھیلیں نباہنے اور تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں لیکن آخری چارہ کار کے طور پر طلاق کی بھی اجازت دی گئی ہے اگر کسی حالت میں بھی طلاق اور علیحدگی کی اجازت نہ ہو تو پھر یہ تعلق اور رشتہ دونوں کے لیے عذاب بن سکتا ہے پھر طلاق کے سلسلے میں تفصیلی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی اصولی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ طلاق اور اس کے ذریعے شوہر و بیوی کے تعلقات کا ٹوٹنا اللہ تعالیٰ کو بےحد ناپسند ہے لہذا جہاں تک ممکن ہو اس سے بچ نہیں چاہیے نا مرد خون یہ اقدام کرے نو عورت اس کا مطالبہ کرے بس انتہائی مجبوری کی صورت ہی میں ایسا کیا جائے جس طرح کیسی وضو میں بڑا فساد پیدا ہوجانے کی صورت میں آپریشن گوارا کیا جاتا ہے۔ پھر اس طلاق اور علیحدگی کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے کہ شوہر طہر کی حالت میں یعنی جن دنوں میں عورت کی ناپاکی کی خالص حالت نہ ہو صرف ایک رجعی طلاق دے تاکہ زمانہ عدت میں رجعت یعنی رجوع کر لینے کی گنجائش رہے پھر اگر شوہر کو رجوع کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے تو عدت کی مدت گزر جانے دے اس سے رجعت کی گنجائش تو نہ رہے گی لیکن دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کا رشتہ قائم ہو سکے گا۔ بیک وقت تین طلاق دینے کو تو ناجائز اور سخت گناہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ آگے درج ہونے والی بعض احادیث سے معلوم ہوگا لیکن متفرق اوقات میں تین طلاقیں دینے کو بھی سخت ناپسند کیا گیا ہے اور اس کی یہ سزا اس دنیا ہی میں مقرر کی گئی ہے کہ اگر وہ شوہر اپنی اس مطلقہ بیوی سے پھر نکاح کرنا چاہے تو نہیں کر سکے گا جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد کے نکاح میں آکر اس کی زیر صحبت نہ رہی ہو پھر یا تو اس کے انتقال کرجانے سے بیوہ ہو گئی ہو یا اس نے بھی طلاق دے دی ہو۔ الغرض صرف اسی صورت میں عدت گزر جانے کے بعد ان دونوں کا دوبارہ نکاح ہو سکے گا یہ سخت پابندی دراصل شوہر کو تین طلاق دینے ہی کی سزا ہے اس تمہید کے بعد اس سلسلے کی چند احادیث ذیل میں پڑھئے:
Top