معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1733
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ طَلاَقٍ جَائِزٌ، إِلاَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ. (رواه الترمذى)
مغلوب العقل کی طلاق
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر طلاق درست و نافذ ہے سوائے اس آدمی کی طلاق کے جس کی عقل و فہم مغلوب ہو گئی ہوں۔ (جامع ترمذی)

تشریح
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مرض یا صدمے کی وجہ سے آدمی کی عقل دانش غیرمتوازن اور مغلوب ہوجاتی ہے اور وہ ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جو عقل و فہم کی سلامتی کی حالت میں نہ کرتا اور اسے اپنی باتوں کا پورا شعور بھی نہیں ہوتا ایسے آدمی کو "معتوہ" اور "مغلوب العقل" کہا جائے گا۔ پس اگر ایسا شخص اس حالت میں بیوی کو طلاق دے تو وہ واقع نہ ہوگی جس طرح دیوانے اور پاگل کی طلاق واقع نہیں مانی جاتی۔ ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ تین آدمی شریعت میں "مرفوع القلم" ہیں یعنی ان کے کسی قول و فعل کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اس پر شریعی حکم مرتب نہیں ہو گا۔ایک وہ جو نیند کی حالت میں ہوں دوسرے نابالغ بچہ اور تیسرے مغلوب العقل آدمی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی سونے کی حالت میں بڑبڑائے اور اس میں بیوی کو طلاق دے دی تو یہ طلاق واقع نہ ہوگی اسی طرح چھوٹے بچے کی اور مغلوب العقل کی طلاق بھی واقع نہ ہوگی۔
Top