معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1734
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ» (رواه ابوداؤد وابن ماجة)
زبردستی کی طلاق
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ زبردستی کی طلاق اور زبردستی کے "عتاق" کا اعتبار نہیں۔ (سنن ابی داؤد،سنن ابن ماجہ)

تشریح
یعنی اگر کسی آدمی کو مجبور اور بالکل بے بس کر کے اس سے بیوی کو طلاق دلوائی گئی یا اس کے غلام کو آزاد کرایا گیا یعنی اس کی زبان سے زبردستی طلاق یا عتاق کی بات کہلوائی گئی تو شریعت میں اس کا اعتبار نہ ہوگا اکثر ائمہ مجتہدین کا مسئلہ یہی ہے کہ جو طلاق زبردستی لی جائے (جس کو اصطلاح میں "طلاق مکرہ" کہتے ہیں اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہؒ ہنسی مذاق کی طرح زبردستی والی طلاق کو بھی نافذ مانتے ہیں اور مصنفین احناف اس حدیث کی تاویل و توجیہ دوسری طرح کرتے ہیں ملحوظ رہے کہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ منفرد نہیں ہیں۔ سلف میں سعید ابن المسیبؒ، ابراہیم نخعیؒ اور سفیان ثوریؒ کا مذہب بھی شروح حدیث میں یہی نقل کیا گیا ہے۔
Top