معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1735
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ الْأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّهَا «طُلِّقَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَكُنْ لِلْمُطَلَّقَةِ عِدَّةٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْعِدَّةِ لِلطَّلَاقِ، فَكَانَتْ أَوَّلَ مَنْ أُنْزِلَتْ فِيهَا الْعِدَّةُ لِلْمُطَلَّقَاتِ» (رواه ابوداؤد)
عدت
حضرت اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ان کو طلاق ہو گئی تھی اور اس وقت تک مطلقہ عورت کے لئے عدت کا کوئی حکم نہیں آیا تھا تو اللہ تعالی نے قرآن مجید کی وہ آیات نازل فرمائیں جن میں طلاق والی عدت کا بیان ہے تو یہ اسماء بنت یزید وہ پہلی طلاق یافتہ خاتون ہیں جن کے بارے میں طلاق کی عدت کا حکم نازل ہوا۔ (سنن ابی داود)

تشریح
اسلامی شریعت میں طلاق یافتہ عورت کے لیے عدت کا قانون بھی مقرر کیا گیا ہے۔ یعنی حکم ہے کہ جس بیوی کو اسکا شوہر طلاق دے دے وہ ایک مقررہ مدت تک عدت گزارے جس کی مختصر تفصیل جو خود قرآن مجید میں بیان فرما دی گئی ہے یہ ہے کہ اگر اس عورت کو حیض کے ایام ہوتے ہوں تو ان کے پورے تین دور گزر جائیں اور اگر عمر کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے ایام نہ ہوتے اور حمل بھی نہ ہو تو تین مہینے اور اگر حمل کی حالت ہو تو پھر عدت کی مدت وضع حمل تک ہےکم ہو یا زیادہ۔ عدت کے اس قانون میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ ایک اہم مصلحت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ رشتہ نکاح کی عظمت اور تقدس کا اظہار ہوتا ہے اگر عدت کا قانون نہ ہو اور عورت کو اجازت ہو کہ شوہر کی طرف سے طلاق کے بعد وہ اپنے حسب خواہش فورا نکاح کرلے تو یقینا یہ بات نکاح کی عظمت شان کے خلاف ہوگی اور نکاح بچوں کا ایک کھیل سے ہوجائے گا ایک دوسری مسئلہ خاص کر طلاق رجعی کی صورت میں یہ بھی ہے کہ عدت کی اس مدت میں مرد کے لیے امکان ہوگا کہ وہ معاملہ پر اچھی طرح غور کرکے رجعت کر لے اور پھر دونوں میاں بیوی بن کے زندگی گزارنے لگیں۔ یہی بات اللہ و رسول کو زیادہ پسند ہے اسی لئے طلاق رجعی کی عدت میں عورت کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے کو بنانے سنوارنے کا ایک ایسا اہتمام کرے اور اپنا رویہ ایسا رکھے کہ شوہر کی طبیعت پھر اس کی طرف مائل ہو جائے اور وہ رجعت کرلے اور طلاق بائنہ کی صورت میں اگرچہ رجعت کا امکان تو نہیں رہتا لیکن زمانہ عدت میں عورت کو دوسرا نکاح نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کی زیادہ گنجائش رہتی ہیں کہ دونوں باہم راضی ہوکر دوبارہ نکاح کے ذریعے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر سے جوڑ لیں۔ ایک تیسری مصلحت یہ بھی ہے کہ عدت کے اس قانون کی وجہ سے عورت سے آئندہ پیدا ہونے والے بچہ کے نسب میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ بہرحال قانون عدت کی یہ چند کھلی ہوئی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ غالبا اسی وجہ سے اکثر متمدن قوموں کے قوانین میں میاں بیوی کی علیحدگی کی صورت میں کسی نہ کسی شکل میں عدت کا ضابطہ ہے۔لیکن بعض قوموں کے قانون میں یہ عدت بہت طویل رکھی گئی ہے جو بیچاری عورت کے لیے تکلیف مالایطاق ہے۔شریعت اسلام نے جو مدت مقرر کی ہے وہ یقینا معتدل اور متوسط ہے۔آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدت کا قانون اس وقت نازل ہوا تھا جب ایک صحابیہ اسماء بنت یزید بن السکن انصاریہ کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی۔ تشریح ..... اس حدیث میں عدت سے متعلق جس آیت کے نازل ہونے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بظاہر سورہ بقرہ کی یہ آیت ہے "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ الآية" اس آیت میں ان مطلقہ عورتوں کی عدت کا حکم بیان کیا گیا ہے جن کو ایام ہوتے ہیں۔ اور جن کو صغر سنی یا کبر سنی کی وجہ سے ایام نہ ہوتے ہوں یا ان کو حمل ہو تو ان کی عدت سورہ طلاق کی آیات میں بیان فرمائی گئی ہے۔
Top