معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1745
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ القِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ، عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلاَهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ. (رواه الترمذى)
مالی معاملات کی نزاکت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن (جب حساب کتاب کے لیے بارگاہ خداوندی میں پیشی ہوگی تو) آدمی کے پاوں اپنی جگہ سے سرک نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کرلی جائے۔ ایک اس کی پوری زندگی کے بارے میں کن کاموں اور مشغلوں میں اس کو ختم کیا؟ اور دوسرے خصوصیت سے اسکی جوانی کے بارے میں کہ کن مشغلوں میں بوسیدہ اور پرانا کیا۔ اور تیسرے اور چوتھے مال و دولت کے بارے میں کہ کہاں سے اور کن طریقوں اور راستوں سے اس کو حاصل کیا تھا اور کن کاموں اور کن راہوں میں اسکو صرف کیا۔ اور پانچواں سوال یہ ہو گا کہ جو کچھ معلوم تھا اس پر کتنا عمل کیا۔(جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت میں ہر آدمی کو اپنے پورے آمد و خرچ کا بھی حساب دینا ہوگا کہ کتنا کمایا حلال طریقے سے کمایا یا خدانخواستہ حرام طریقے سے؟ اور کمائی کو کی مدوں میں خرچ کیا جائز میں یا ناجائز میں؟ الغرض اس دنیا اور اس کی زندگی میں ہم جو کچھ کماتے اور خرچ کرتے ہیں آخرت میں اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ وہ بندے بڑے خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں جو قیامت کے دن کے اس حساب کو پیش نظر رکھتے ہوئے کمانے اور خرچ کرنے میں اور سارے مالی معاملات میں اللہ تعالی کی ہدایت اور رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور ان کا انجام بہت خطرناک ہے جو اس طرف سے بے فکر اور بے پروا ہیں۔
Top