معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1746
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قالَ: «لا يَكْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامٍ فَيَتَصَدَّقُ مِنْهُ فَيُقْبَلُ مِنْهُ، وَلا يُنْفِقُ مِنْهُ فَيُبَارَكُ لَهُ فِيهِ، وَلا يَتْرُكُهُ خَلْفَ ظَهْرِهِ إِلا كَانَ زَادَهُ إِلَى النَّارِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ، وَلَكِنْ يَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ، إِنَّ الْخَبِيثَ لَا يَمْحُو الْخَبِيثَ».
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ (کسی ناجائز طریقہ سے) حرام مال کمائے اور اس میں سے للہ صدقہ کرے تو اس کا صدقہ قبول ہو گا۔ اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میں (منجانب اللہ) کی برکت ہو۔ اور جو شخص حرام مال (مرنے کے بعد) پیچھے چھوڑ کے جائے گا تو وہ اس کے لئے جہنم کا توشہ ہی ہوگا۔ یقینا اللہ تعالی بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا بلکہ بدی کو نیکی سے مٹاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گندگی گندگی کو نہیں دھو سکتی۔ (مسند احمد نیز شرح السنہ میں بھی اسی طرح ہے)

تشریح
حدیث کا حاصل اور مدعا یہ ہے کہ حرام مال سے کیا ہوا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور حرام کمائی میں برکت نہیں ہوتی اور جب کوئی آدمی ناجائز و حرام طریقے سے کمایا ہوا مال مرنے کے بعد وارثوں کے لئے چھوڑ گیا تو وہ آخرت میں اس کے لیے وبال ہی کا باعث ہوگا اس کو حرام کمانے کا بھی گناہ ہوگا اور وارثوں کو حرام کھلانے کا بھی۔ (حالانکہ وارثوں کے لیے حلال مال چھوڑ جانا ایک طرح کا صدقہ ہے اور اس پر یقین اجروثواب ملنے والا ہے) آگے جو فرمایا گیا ہے "إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ الخ" میں مال حرام کا صدقہ قبول نہ ہونے اور مرنے کے بعد باعث وبال ہونے کا سبب بیان فرمایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صدقہ اگر صحیح اور پاک مال سے ہو تو وہ گناہوں کا کفارہ اور مغفرت کا وسیلہ بن جاتا ہے لیکن اگر حرام اور ناپاک مال سے صدقہ کیا گیا تو نجس اور ناپاک ہے وہ گناہوں کی گندگی کو دھونے کی اور گناہوں کا کفارہ اور مغفرت کا وسیلہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا جس طرح گندے اور ناپاک پانی سے ناپاک کپڑا پاک صاف نہیں کیا جا سکتا ہے۔
Top