معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1764
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا بِفِنَاءِ الْمَسْجِدِ حَيْثُ يُوضَعُ الْجَنَائِزُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَنَظَرَ، ثُمَّ طَأْطَأَ بَصَرَهُ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ مَاذَا نَزَلَ مِنَ التَّشْدِيدِ؟» قَالَ: فَسَكَتْنَا يَوْمَنَا وَلَيْلَتَنَا، فَلَمْ نَرَ إِلَّا خَيْرًا حَتَّى أَصْبَحْنَا. قَالَ مُحَمَّدٌ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا التَّشْدِيدُ الَّذِي نَزَلَ؟ قَالَ: «فِي الدَّيْنِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ عَاشَ، ثُمَّ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ عَاشَ، ثُمَّ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ عَاشَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَقْضِيَ دَيْنَهُ» (رواه احمد)
قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش ؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک دن مسجد کے باہر کے میدان میں جہاں جنازے لاکر رکھے جاتے ہیں بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اچانک آپ ﷺ نے نگاہ مبارک آسمان کی طرف اٹھائی اور کچھ دیکھا۔ پھر نگاہ نیچی فرمالی اور (ایک خاص فکر مندانہ انداز میں) اپنا ہاتھ پیشانی مبارک پر رکھ کر بیٹھ گئے اور اسی حالت میں فرمایا۔ "سبحان الله سبحان الله" (اللہ پاک ہے اس کا ہر حکم اور فیصلہ برحق) کس قدر سخت وعید اور سنگین فرمان نازل ہوا ہے حدیث کے راوی محمد ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ اس دن اور اس رات ہم سب خاموش رہے (اور منتظر رہے کہ کیا ظہور میں آتا ہے مگر) خیریت ہی رہی تو اگلے دن صبح کو میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ حضرت وہ کیا سخت اور بھاری چیز تھی جو کل نازل ہوئی تھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ نہایت سخت وعید اور بھاری فرمان قرضہ کے بارے میں نازل ہوا ہے (اس کے بعد آپ ﷺ نے اس خداوندی فرمان اوروعید کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا) قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر کوئی آدمی راہ خدا میں یعنی جہاد میں شہید ہو اور وہ شہادت کے بعد پھر زندہ ہو جائے اور پھر جہاد میں شہید ہو اور اس کے بعد پھر زندہ ہو جائے اور پھر راہ خدا میں شہید ہو اور پھر زندہ ہو اور اس کے ذمہ قرض ہو تو جنت میں اس وقت تک نہ جا سکے گا جب تک اس کا قرض ادا نہ ہو جائے۔

تشریح
بظاہر ان سب حدیثوں اور وعیدوں کا تعلق اس صورت سے ہے جبکہ قرضہ کے ادا نہ کرنے میں بدنیتی اور غفلت و لاپروائی کا دخل ہو اگر ادا کرنے کی نیت تھی اور فکرمند بھی تھا لیکن بیچارہ ادا کرنے پر قادر نہ ہوسکا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ عند اللہ معذور ہوگا جیسا کہ عنقریب ہی درج ہونے والی ایک حدیث سے معلوم ہوگا۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث سے ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے دور میں جنازوں کی نماز مسجد سے باہر میدان میں ہوتی تھی حنفیہ کے نزدیک یہی بہتر ہے۔
Top