معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1765
عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ، فَقَالُوا: صَلِّ عَلَيْهَا، فَقَالَ: «هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟»، قَالُوا: لاَ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالَ: «هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟» قِيلَ: نَعَمْ، قَالَ: «فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟»، قَالُوا: ثَلاَثَةَ دَنَانِيرَ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ أُتِيَ بِالثَّالِثَةِ، فَقَالَ: «هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟» قَالُوا: ثَلاَثَةُ دَنَانِيرَ، قَالَ: «هَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟» قَالُوا: لاَ، قَالَ: «صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ»، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ صَلِّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ، فَصَلَّى عَلَيْهِ. (رواه البخارى)
قرض کا معاملہ بڑا سنگین اور اس کے بارے میں سخت وعیدیں
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک میت کا جنازہ لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ حضرت اس کی نماز جنازہ پڑھا دیجئے! آپ ﷺ نے دریافت فرمایا ہے کہ کیا اس آدمی پر کچھ قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض نہیں ہیں تو آپ ﷺ نے اس جنازے کی نماز پڑھادی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا اس کے بارے میں آپ ﷺ نے پوچھا کہ اس میت پر کسی کا قرضہ ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہاں اس پر قرض ہے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے؟ (جس سے قرض ادا ہو جائے) لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے تین دینار چھوڑے ہیں کی تو آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ وسلم نے اس کے بارے میں بھی دریافت فرمایا کہ کیا اس مرنے والے پر کچھ قرضہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں اس پر تین دینار کا قرضہ ہے آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے (جس سے قرض ادا ہو سکے) لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ نہیں چھوڑا تو آپ ﷺ نے حاضرین صحابہ سے فرمایا کہ اپنے اس ساتھی کی نمازجنازہ تم لوگ پڑھ لو۔ تو ابو قتادہ انصاری ؓ نے عرض کیا کہ حضور! اس کی نماز پڑھادیں اور اس پر جو قرضہ ہے وہ میں نے اپنے ذمہ لے لیا (میں ادا کروں گا) تو اس کے بعد آپ ﷺ نے اس جنازہ کی بھی نماز پڑھادی۔ (صحیح بخاری)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کا یہ طرز عمل بظاہر زندوں کو تنبیہ کے لیے تھا کہ وہ قرضوں کے ادا کرنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں اور ہر شخص کی یہ کوشش ہو کہ اگر اس پر کسی کا قرضہ ہے تو وہ اس سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اور دنیا سے اس حال میں جائے کہ اس کے ذمہ کسی کا کچھ مطالبہ نہ ہو۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک حدیث اسی بارے میں مروی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ طرزعمل (کے قرضدار میت کی نماز جنازہ سے خود معذرت فرما دیتے اور صحابہ کرامؓ سے فرما دیتے کہ تم لوگ پڑھ لو) ابتدائی دور میں تھا بعد میں جب اللہ تعالی کی طرف سے فتوحات کا دروازہ کھل گیا اور افلاس و ناداری کا دور ختم ہوگیا تو آپ ﷺ نے اعلان فرما دیا کہ اگر کوئی مسلمان اس حال میں انتقال کر جائے کہ اس پر قرض ہو (اور ادائیگی کا سامان نہ چھوڑا ہو) تو وہ قرض میرے ذمہ ہے میں اس کو ادا کروں گا۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ کسی مسلمان کے ذمہ کسی دوسرے کا حق باقی نہ رہ جائے۔ بہرحال ان سب حدیثوں سے معلوم ہوا کہ قرض ادا نہ کرنا اور اس حال میں دنیا سے چلا جانا بڑا سنگین گناہ ہے اور اس کا انجام بہت ہی خطرناک ہے۔ اللہ تعالی رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات سے سبق لینے کی ہم سب کو توفیق دے اور دنیا سے اس حال میں اٹھائے گئے کہ کسی بندہ کا قرض اور کوئی حق ہمارے ذمہ نہ ہو۔
Top