معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1770
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا تَقَاضَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَغْلَظَ لَهُ، فَهَمَّ أَصْحَابُهُ فَقَالَ: دَعُوهُ «فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا»، «وَاشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ» قَالُوا: لاَ نَجِدُ إِلَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ، قَالَ: «اشْتَرُوهُ، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً» (رواه مسلم)
قرض لینے اور ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے قرضہ کا تقاضا کیا اور سخت کلامی کی تو آپ ﷺ کے اصحابِ کرامؓ نے (جو اس وقت موجود تھے اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا) ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا "اس کو چھوڑ دو کچھ نہ کہو کیاں کہ صاحبِ حق کو کہنے کا حق ہے اور اس کا قرض ادا کرنے کے واسطے ایک اونٹ خرید لاؤ اور اس کو دے دو"۔ انہوں نے واپس آ کر کہا (اس شخص کا اونٹ جس حیثیت کا تھا اس طرح کا اونٹ نہیں مل رہا ہے) صرف ایسا اونٹ ملتا ہے جو اس کے اونٹ سے زیادہ عمر کا اور زیادہ بڑھیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا وہی خرید لاؤ اور اس کو وہی دے دو، کیوں کہ وہ آدمی زیادہ اچھا ہے جو بہتر اور برتر ادا کرے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بلکہ اس سے پہلے سے عرب میں یہ عام رواج تھا کہ ایک آدمی اپنی ضرورت کے لئے دوسرے آدمی سے اونٹ قرض لے لیتا اور یہ معاملہ روپیہ پیسے کے حساب سے نہ ہوتا بلکہ یہ طے ہو جاتا کہ اس عمر اور اس حیثیت کا دوسرا اونٹ اس کے بدلے مقررہ مدت تک دے دیا جائے گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس رواج کے مطابق کسی وقت کسی شخص سے اونٹ قرض لیا تھا۔ غالباً مقررہ وقت آ جانے پر وہ تقاضا کرنے آیا اور اس نے ادن و تمیز کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا، صحابہ کرامؓ میں سے جو حضرات اس وقت حاضر و موجود تھے انہوں نے اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اس کو کچھ نہ کہو، اس کا ہم پر حق ہے اور صاحبِ حق کو سخت سست کہنے کا حق ہے۔ ہاں تم یہ کرو کہ جس عمر کا اور جس حیثیت کا اس شخص کا اونٹ تھا ویسا ہی خرید کر لاد دو اور اس کو ادا کر دو۔ صحابہ کرامؓ نے ویسا اونٹ تلاش کیا، لیکن کہیں نہیں ملا، ہاں عمر اور حیثیت کے لحاظ سے اس سے بڑا اور بڑھیا اونٹ ملتا تھا، انہوں نے واپس آ کر حضور سے یہی عرض کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: جو بڑا اور بڑھیا مل رہا ہے وہی خرید لاؤ اور اس کو وہی دے دو۔ ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ جو آدمی زیادہ بہتر اور برتر ادا کرتا ہے وہی زیادہ اچھا ہے۔ اس حدیث میں امت کے لئے جو سبق ہے وہ کسی وضاحت اور تشریح کا محتاج نہیں۔ کسی ذریعہ سے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ شخص جس کا اس حدیث میں ذکر ہے اور جس نے تقاضا کرنے میں ادب و تمیز کے خلاف رویہ اختیار کیا تھا، کون تھا، غالب گمان یہی ہے کہ کوئی غیر مسلم یہودی وغیرہ ہو گا۔ اس سلسلہ معارف الحدیث میں اس حدیث کی تشریح میں جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضور ﷺ کی وفات ہوئی اتو آپ ﷺ کی زرہ مبارک ۳۰ صاع جو کے عوض ایک یہودی کے یہاں رہن رکھی ہوئی تھی) تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے کہ حضور ﷺ یہودیوں وغیرہ غیر مسلموں سے بھی قرض لے لیتے تھے اور وہیں اس کی حکمتیں و مصلحتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
Top