معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1771
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، قَالَ: اسْتَقْرَضَ مِنِّي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ أَلْفًا، فَجَاءَهُ مَالٌ فَدَفَعَهُ إِلَيَّ، وَقَالَ: «بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ، إِنَّمَا جَزَاءُ السَّلَفِ الْحَمْدُ وَالْأَدَاءُ» (رواه النسائى)
قرض لینے اور ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا طرزِ عمل
حضرت عبداللہ بن ابی ربیعہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار قرض لیا پھر آپ کے پاس سرمایہ آ گیا تو آپ نے مجھے عطا فرما دیا اور ساتھ ہی مجھے دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاے اہل و عیال اور مال میں برکت دے۔ قرض کا بدلہ یہ ہے کہ ادا کیا جائے اور (قرض دینے والے کی) تعریف اور شکریہ ادا کیا جائے۔ (سنن نسائی)

تشریح
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ قرض بھی لیتے تھے اور ادائیگی کے وقت "هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ" کے اصول پر حق واجب سے زیادہ اور بہتر ادا فرماتے تھے اور دعائے خیر سے بھی نوازتے تھے۔ آخری حدیث میں چالیس ہزار قرض لینے کا ذکر ہے۔ بطاہر اس سے مراد چالیس ہزار درہم ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات آپ بڑی بڑی رقمیں بھی قرض لیتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ ایسے قرضے آپ ﷺ جہاد وغیرہ دینی مہمات ہی کے لئے لیتے ہوں گے، ورنہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اہل و عیال کی معیشت کا ھال تو یہ تھا کہ بقول حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کبھی دو دن متواتر پیٹ بھر کے جو کی روٹی بھی نہیں کھائی اور بسا اوقات فاقوں کی نوبت آتی تھی اور مہینوں گھر میں چولہا گرم نہیں ہوتا تھا صرف پانی اور کھجور پر گزارہ ہوتا تھا۔ ﷺ۔
Top