معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1772
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوبِقَاتِ»، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: «الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ اليَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ المُحْصَنَاتِ المُؤْمِنَاتِ الغَافِلاَتِ» (رواه البخارى ومسلم)
رِبا (سود)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ساتھ مہلک اور تباہ کن گناہوں سے بچو، صحابہ نے عرض یا یا رسول اللہ! وہ کون سے سات گناہ ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ کے ساتھ (اس کی عبادت یا صفات یا افعال میں کسی کو) شریک کرنا، اور جادو کرنا، اور ناحق کسی آدمی کو قتل کرنا اور سود کھانا، اور یتیم کا مال کھانا اور (اپنی جان بچانے کے لئے) جہاد میں لشکر اسلام کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ جانا اور اللہ کی پاک دامن بھولی بھالی بندیوں پر زنا کی تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
دنیا کے دوسرے ملکوں اور قوموں کی طرح عربوں میں بھی سودی لین دین کا رواج تھا، اور ہمارے یہاں کے دود خور مہاجنوں کی طرح وہاں بھی کچھ سرمایہ دار یہ کاروبار کرتے تھے جس کی عام مروج و معروف صورت یہی تھی کہ ضرورت مند لوگ ان سے قرض لیتے اور طے ہو جاتا کہ یہ رقم وہ فلاں وقت تک اتنے اضافے کے ساتھ ادا کر دیں گے۔ پھر مقررہ وقت پر قرض لینے والا ادا نہ کر سکتا تو مزید مہلت لے لیتا اور اس مہلت کے حساب میں سود کی رقم میں اضافہ طے ہو جاتا۔ اس طرح غریب قرض داروں کا بوجھ بڑھتا رہتا اور سود خور مہاجن ان کا خون چوستے رہتے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے بالکل خلاف تھی۔ اسلام کی تعلیم اور ہدایت تو اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ غریبوں کی مدد کی جائے، کمزوروں کو سہارا دیا جائے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے اور یہ سب اپنی کسی دنیوی مصلحت و منفعت کے لئے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت کے ثواب کے لئے کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں جس طرح ام الخبائث شراب سے لوگوں کو بچانے کے لئے تدریجی رویہ اختیار فرمایا اسی طرح سود کے ظالمانہ اور لعنتی کاروبار کے رواج کو ختم کرنے کے لئے بھی اسی حکمت عملی کو استعمال کیا گیا۔ شروع میں طویل مدت تک صرف مثبت انداز میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اپنی دولت فی سبیل اللہ خرچ کرو، غریبوں کی مدد کرو، کمزوروں کو سہارا دو، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرو۔ رحم، سخاوت اور ایثار جیسے اخلاق کو اپناؤ، بتلایا گیا کہ تم بھی فانی ہو، تمہاری دولت بھی فنا ہو جانے والی ہے۔ اس لئے اس دولت کے ذریعہ آخر کی ابدیفلاح اور جنت کماؤ، قارون جیسے پرستارانِ دولت کے انجام سے سبق حاصل کرو۔ اس تعلیم و ہدایت اور اس کے مطابق عمل نے معاشرہ کا مزاج ایسا بنا دیا، اور فضا اس کے لئے ایسی سازگار ہو گئی کہ اس ظالمانہ اور انسانیت کش کاروبار (ربوا۔ سود) کی قطعی حرمت کا قانون نافذ کر دیا جائے۔ چنانچہ اواخر سورہ بقرہ کی ۲۷۵ سے ۲۸۰ تک کی وہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں واضح طور پر ربوا (سود) کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے۔ یعنی "الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا" سے لے کر "وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ" تک۔ ان آیتوں میں یہ بھی صراحت کر دی گئی اگر پچھلے لین دین کے سلسلے میں کسی کی کوئی سودی رقم کسی مقروض کے ذمے باقی ہے تو وہ بھی اب نہیں لی دی جائے گی۔ انہی آیتوں میں یہ بھی اعلان فرما دیا گیا کہ سودہ کاروبار کی حرمت کے اس اعلان کے بعد بھی جو لگ باز نہ آئیں اور خداوندی قانون کی نافرمانی کریں ان کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے (فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ) اللہ کی پناہ! یہ وعید (یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کی وعید) سودی کاروبار کے سوا زنا شراب، خونِ ناحق وغیرہ کسی بھی بڑے سے بڑے گناہ کے بارے میں قرآن مجید میں وارد نہیں ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں یہ گناہ دوسرے سب گناہوں سے زیادہ شدید و غلیظ ہے۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ نے سود خوری کو انتہائی درجہ کے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔ اور سود لینے والوں کے ساتھ اس کے دینے والوں یہاں تک کہ سودی دستاویز لکھنے والوں اور سودی معاملے کے گواہ بننے والوں کو بھی مستحق لعنت قرار دیا ہے۔ اور بعض روایات میں سود کا گناہ زنا سے ستر گنا زیادہ بتلایا گیا ہے۔ اس تمہید کے بعد اس باب کی مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے: تشریح ..... اس حدیث میں جن گناہوں سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے یہ شدید ترین اور خبیث ترین کبیرہ گناہ ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان کو "موبقات" فرمایا ہے (یعنی آدمی کو اور اس کی ایمانی روح کو ہلاک و برباد کر دینے والے) ان میں آپ ﷺ نے شرک اور سحر اور قتلِ ناحق کے بعد اکل ربا (سود لینے اور کھانے) کا ذکر فرمایا اور اس کو روحِ ایمانی کے لئے قاتل اور مہلک بتلایا ہے۔ جس طرح اطبا اور ڈاکٹر اپنے تحقیقی علم و فن اور تجربہ کی بناء پر اس دنیا میں زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں، دواؤں، غذاؤں وغیرہ کے خواص بیان کرتے ہیں کہ فلاں چیز میں یہ خاصیت اور تاثیر ہے اور یہ آدمی کے فلاں مرض کے لئے مفید یا مضر ہے، اسی طرح انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے ہوئے علم کی بنیاد پر انسانوں کے عقائد و افکار اور اعمال و اخلاق کے خواص اور نتائج بتلاتے ہیں کہ فلاں ایمانی عقیدہ اور فلاں نیک عمل اور فلاں اچھی خصلت کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت میں جنت کی نعمتیں اور دنیا میں قلب و روح کا سکون ہے اور فلاں کافرانہ و مشرکانہ عقیدے اور فلاں ظلم و معصیت کا انجام اللہ کی لعنت اور دوزخ کا عذاب اور دنیا میں طرح طرح کی بےچینیاں اور پریشانیاں ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ اطباء اور ڈاکٹروں کی تحقیق اور غور و فکر میں غلطی کا امکان ہے اور کبھی کبھی غلطی کا تجربہ بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن انبیاء علیہم السلام کی بنیاد خالق کائنات اور علیم کل اللہ تعالیٰ کی وحی پر ہوتی ہے اس میں کسی بھول چوک یا غلطی کا احتمال اور کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ مگر عجب معاملہ ہے کہ حکیموں ڈاکٹروں کی تجویز کی ہوئی دواؤں کو سب بلا چون و چرا کے اعتماد پر استعمال کرتے ہیں، پرہیز کے بارے میں وہ جو ہدایت دیں اس کی بھی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اور اسی کو عقل کا تقاضا سمجھا جاتا ہے اور کسی مریض کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ کہے کہ میں دواجب استعمال کروں گا جب اس کی تاثیر کا فلسفہ مجھے سمجھا دیا جائے۔ لیکن اللہ کی کتاب قرآن مجید اور اس کے رسولِ برحق خاتم الانبیاء ﷺ مثلاً سود کے بارے میں فرمائیں کہ وہ شدید و خبیث کبیرہ گناہ اور "موبقات" میں سے ہے۔ خدا کی لعنت و غضب کا موجب اور روح ایمان کے لئے قاتل ہے اور سود خوروں کے لئے آخرت میں لرزہ خیز عذاب ہے تو بہت سے مدعیانِ عقل و ایمان کے لئے یہ کافی نہ ہوا اور وہ اس کا "فلسفہ" معلوم کرنا ضروری سمجھیں۔ اللہ دلوں کو ایمان و یقین نصیب فرمائے۔
Top