معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1781
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَمَنْ زَادَ، أَوِ اسْتَزَادَ، فَقَدْ أَرْبَى، الْآخِذُ وَالْمُعْطِي فِيهِ سَوَاءٌ» (رواه مسلم)
رِبا (سود)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: سونا سونے کے عوض اور چاندی چاندی کے عوضاور گیہوں گیہوں کے عوض اور جَو جَو کے عوض اور کھجوریں کھجوروں کے عوض دست بدست برابر سرابر بیچا خریدا جائے۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا تو اس نے سود کا معاملہ کیا (اور وہ سود کے گناہ کا مرتکب ہوا) اس میں لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس مضمون کی حدیثیں اس حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری کے علاوہ حضرت عمر، حضرت عبادہ بن صامت حضرت ابو بکرہ حضرت ابو ہریرہ ؓ وغیرہ اور بھی متعدد صحابہ کرام سے مروی ہیں۔ ان کا مدعا اور مطلب یہ ہے کہ جن چھ چیزوں کا اس حدیث میں ذکر کیا ہے (یعنی سونا، چاندی، گیہوں، جَو، کھجور، نمک) اگر ان میں سے کسی جنس کا اسی جنس سے تبادلہ کیا جائے (مثلاً گیہوں دے کر اس کے بدلے میں گیہوں لئے جائیں) تو یہ معاملہ جب جائز ہو گا جب برابر برابر اور دست بدست لیا جائے۔ اگر کمی بیشی ہوئی یا لین دین دست بدست (ہاتھ کے ہاتھ) نہ ہوا بلکہ قرض ادھار کی بات ہوئی تو جائز نہ ہو گا بلکہ یہ ایک طرح کا سود کا معاملہ ہو جائے گا اور دونوں فریق سود کے مرتکب اور گنہگار ہوں گے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے "حجۃ اللہ البالغہ" میں ان حدیثوں کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اور اس سے پہلے زمانہ جاہلیت میں جس ربا (سود) کا رواج تھا اور جس کو "ربا" کہا جاتا تھا وہ قرض ادھار والا ہی سود تھا جس کی صورت (جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا) یہ تھی کہ جو سرمایہ دار مہاجن سودی کاروبار کرتے تھے، ضرورت مند لوگ ان سے قرض لیتے تھے اور طے ہو جاتا تھا کہ اتنے اضافہ کے ساتھ فلاں وقت تک وہ یہ قرض ادا کر دیں گے، پھر اگر مقررہ میعاد پر وہ ادا نہ کر سکتے تو اور مہلت لے لیتے اور اس مہلت کے حساب میں سود کی رقم میں اور اضافہ طے ہو جاتا (شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ) اسی سودی کاروبار کا رواج تھا اور اسی کو "ربا" کہا جاتا تھا، قرآن مجید میں براہ راست اسی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے خرید و فروخت کی بعض صورتوں کے بھی ربوا کے حکم میں داخل ہونے کا اعلان فرمایا اور ان سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی۔ ان حدیثوں مٰں اسی کا اعلان فرمایا گیا ہے۔ اور مقصد و مدعا یہ ہے کہ جن چھ چیزوں کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ان میں کسی جنس کا بھی اگر اسی جنس سے تبادلہ کیا جائے تو کسی طرف کمی بیشی نہ ہو بلکہ برابر برابر ہو اور لین دین ہاتھ کے ہاتھ ہو اگر تبادلہ میں کمی بیشی ہوئی یا لین دین ہاتھ کے ہاتھ نہ ہوا تو یہ ربوا اور سود کی ایک قسم ہو گی اور دونوں فریق گنہگار ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اپنے معمول کے مطابق اس حکم کی جو حکمت بیان فرمائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تعیش اور "رفاہیت بالغہ" یعنی زیادہ بلند معیار اور رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی پسند نہیں فرماتا کیاں کہ جو شخص بہت اونچے معیار کی تعیش کی زندگی گزارے گا وہ لازمی طور پر طلب دنیا میں زیادہ منہمک ہو گا اور آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے اور روح کے تزکیہ کی فکر سے وہ اسی حساب سے غافل ہو گا، علاوہ ازیں معاشرہ میں زیادہ اونچ نیچ سے جو طرح طرح کے مفاسد پیدا ہوتے ہیں وہ بھی پیدا ہوں گے اور تعیش اور اعلیٰ معیار زندگی ہی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز بڑھیا سے بڑھیا اور اعلیٰ معیار کی استعمال کی جائے، گیہوں اعلیٰ قسم ہی کا کھایا جائے، کھجوریں اعلیٰ قسم ہی کی کھائی جائیں، سونا اور چاندی اعلیٰ معیار ہی کی استعمال کی جائیں جس کی عملی صورت اکثر یہی ہوتی تھی کہ اگر اپنے پاس اعلیٰ درجہ کی چیز نہیں ہے بلکہ معمولی درجہ کی ہے تو وہ زیادہ مقدار میں دے کر ان کے بدلے میں اعلیٰ معیار کی تھوڑی مقدار میں لے لی جائے، بہرحال کمی بیشی کے ساتھ ایک جنس کا اسی جنس سے تبادلہ عموماً تعیش اور اعلیٰ معیار زندگی کے تقاضے سے ہی کیا جاتا تھا تو اس کی ممانعت کے ذریعہ اس کے راستہ میں رکاوٹ ڈالی گئی اور ایک حد تک اس کا سد باب کیا گیا۔ والله اعلم باسرار احكامه. حدیث میں صرف مذکورہ بالا چھ چیزوں کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے لیکن امت کے فقہا مجتہدین کا اس پر قریبا اتفاق ہے کہ ان چھ چیزوں کے علاوہ بھی جو چیزیں اس نوعیت کی ہیں ان کا حکم بھی یہی ہے اگرچہ تفصیلات میں فقہا کی رایوں میں کچھ فرق و اختلاف ہے۔
Top