معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1783
عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ؛ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، بَاعَ سِقَايَةً مِنْ ذَهَبٍ، أَوْ وَرِقٍ بِأَكْثَرَ مِنْ وَزْنِهَا. فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم، يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هذَا إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ. فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: مَا أَرَى بِمِثْلِ هذَا بَأْساً. فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مَنْ يَعْذِرُ لِي مِنْ مُعَاوِيَةَ؟. أَنَا أُخْبِرُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم. وَهُوَ يُخْبِرُنِي عَنْ رَأْيِهِ. لاَ أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ أَنْتَ بِهَا. ثُمَّ قَدِمَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. فَذَكَرَ لَهُ ذلِكَ. فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، إِلَى مُعَاوِيَةَ: أَنْ لاَ يَبِيعَ ذلِكَ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ وَزْناً بِوَزْنٍ. (رواه مالك فى الموطا والنسائى فى سننه)
رِبا (سود)
عطا بن یسار تابعی سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہؓ نے سونے یا چاندی کا ایک پیالہ (یا جگ) اسی جنس کے اس سے زیادہ وزن کے عوض فروخت کیا، تو حضرت ابو الدارداء نے ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔ آپ ﷺ اس طرح کی بیع فروح سے منع فرماتے تھے۔ الا یہ کہ برابر برابر ہو، تو حضرت معاویہؓ نے کہا میرے نزدیک ترو اس میں کوئی مضائقہ اور گناہ کی بات نہیں ہے۔ حضرت ابو الدرداء نے (سخت رنجیدہ ہو کر) کہا کہ مجھے معاویہؓ کے بارے میں معذور سمجھا جائے۔ میں ان کو رسول اللہ ﷺ کا حکم بتاتا ہوں اور وہ مجھے اپنی رائے بتاتے ہیں۔ (اس کے بعد خود حضرت معاویہؓ سے کہا کہ) میں تمہارے ساتھ اس سرزمین میں نہیں رہوں گا، جہاں تم ہو گے۔ اس کے بعد حضرت ابو الدرداءؓ حضرت عمر ؓ کے پاس مدینہ آئے اور آپؓ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، تو حضرت عمرؓ نے حضرت معاویہؓ کو لکھا کہ اس طرح کی بیع فروخت نہ کرو، سونا، چاندی وغیرہ کا اسی جنس سے تبادلہ صرف اس صورت میں جائز ہے کہ دونوں طرف وزن یکساں اور برابر برابر ہو۔ (موطا امام مالک، سنن نسائی)

تشریح
حضرت عمر ؓ کے دورِ خلافت میں حضرت معاویہؓ علاقہ شام کے حاکم (گورنر) تھے، حضرت ابو الدرداء ؓ کا قیام بھی وہیں تھا اسی زمانہ میں حضرت معاویہؓ نے سونے یا چاندی سے بنا ہوا پانی کا ایک برتن (پیالہ یا جگ) بطور قیمت اسی جنس سے وزن میں کچھ زیادہ لے کر فروخت کیا اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا، حضرت ابو الدرداءؓ نے ان سے ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی بیع سے منع فرمایا ہے، حکم یہ ہے کہ سونے یا چاندی کی کوئی چیز اگر اسی جنس کے عوض بیچی یا خریدی جائے تو وزن میں کمی بیشی نہ ہونی چاہئے وزن برابر برابر ہونا چاہئے۔ حضرت معاویہ ؓ کا خیال غالبا یہ تھا کہ سونے یا چاندی سے بنی ہوئی چیز (زیور یا برتن) اگر فروخت کیا جائے تو بنوائی کی اجرت کا لحاظ کر کے کچھ زیادہ لینا ناجائز نہ ہو گا، اس بناء پر انہوں نے کہا کہ "میرے نزدیک تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے"۔ لیکن حضرت ابو الدرداء ؓ کو حضرت معاویہؓ کی یہ بات سخت ناگوار ہوئی کیوں کہ انہوں نے حضور ﷺ سے جو کچھ سنا تھا وہ اس کی روشنی میں اس رائے یا اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں سمجھتے تھے۔ بہرحال وہ ناراض ہو کر وہاں کی سکونت ترک کر کے مدینہ چلے آئے اور حضرت عمر ؓ سے واقعہ بیان کیا، آپؓ نے حضرت معاویہؓ کو لکھا کہ شرعی حکم وہی ہے جو ابو الدرداء نے بتلایا لہذا ایسی خرید و فروخت نہ کی جائے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ ربا (سود) کی اس دوسری قسم (ربائے حکمی) کے بارے میں بھی صحابہ کرامؓ میں کتنی شدت تھی اور اس بارے میں کسی کی اجتہادی غلطی بھی ان کے لئے قابلِ برداشت نہیں تھی۔
Top