معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1792
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَلَقَّوْا الْجَلَبَ، فَمَنْ تَلَقَّاهُ فَاشْتَرَى مِنْهُ، فَإِذَا أَتَى سَيِّدُهُ السُّوقَ، فَهُوَ بِالْخِيَارِ» (رواه مسلم)
بیچنے والے یا خریدنے والے کی ناواقفی سے ناجائز فائدہ اُٹھانے اور ہر طرح کے دھوکے فریب کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ غلہ وغیرہ لانے والے قافلہ سے مال خریدنے کے لئے آگے جا کے نہ ملو، جس تاجر نے آگے جا کر راستہ ہی میں سودا کیا اور خرید لیا تو مال کا مالک جب بازار پہنچے تو اس کو اختیار ہو گا (کہ چاہے تو وہ معاملہ فسخ کر دے)۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ لوگ غلہ وغیرہ ضروریات کی چیزیں باہر سے لا کر شہروں کے بازاروں میں فروخت کرتے تھے اور یہ چھوٹے چھوٹے قافلوں کی شکل میں آتے تھے، (ان تجارتی قافلوں کو "حلب" کہا جاتا تھا) چالاک تاجر ایسا کرتے تھے کہ بازار اور منڈی پہنچنے سے پہلے راستہ ہی میں ان کے پاس پہنچ کر مال کا سودا کر لیتے تھے اس میں اس کا بہت امکان ہوتا تھا کہ بازار کے بھاؤ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے بارہ سے مال لانے والے اپنا مال ان تاجروں کے ہاتھ سستے داموں بیچ دیں اور اس سے ان کو نقصان پہنچے۔ اور اس سے بڑی دوسری خرابی اس طریقہ میں یہ تھی کہ باہر سے آنے والا سارا غلہ اور دیگر سامان ان چالاک سرمایہ دار تاجروں کے ہاتھ میں چلا جاتا تھا پھر یہ اس کو عام صارفین کے ہاتھ من مانے داموں پر بیچتے اور زیادہ سے زیادہ نفع کماتے۔ اگر مال بازار میں آ کر بکتا تو لانے والوں کو بھی مناسب قیمت ملتی اور عام ضرورت مند بھی مناسب داموں پر خرید سکتے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ہدایت فرمائی کہ غلہ وغیرہ لانے والوں سے بازار پہنچنے سے پہلے راستے میں جا کر خریداری نہ کی جائے اور اگر اس طرح کسی نے کوئی سودا کیا تو مال لانے والا اگر بازار پہنچ کر محسوس کرے کہ بازار کے بھاؤ سے بےخبری کی وجہ سے اس کو دھوکا اور نقصان ہو گیا تو اس کو معاملہ فسخ کر دینے کا اختیار ہے۔
Top