معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1800
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا، ابْتَاعَ غُلَامًا فَأَقَامَ عِنْدَهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يُقِيمَ، ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا فَخَاصَمَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّهُ عَلَيْهِ فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدِ اسْتَغَلَّ غُلَامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ» (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى وابن ماجة)
خیار عیب ، یعنی عیب کی وجہ سے معاملہ فسخ کرنے کا اختیار
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی دوسرے سے ایک غلام خریدا، اور وہ (کچھ دن) جتنے اللہ نے چاہا اس کے پاس رہا، پھر اسے معلوم ہوا کہ غلام میں ایک عیب ہے، تو وہ شخص اس معاملہ کو لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور آپ ﷺ سے فیصلہ چاہا، تو آپ ﷺ نے (اس عیب کی بنیاد پر) غلام واپس کر دینے کا فیصلہ فرما دیا۔ مدعا علیہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس بھائی نے (اتنے دن تک) میرے غلام سے کام لیا ہے اور فائدہ اٹھایا ہے (لہٰذا مجھے اس کا معاوضہ بھی ملنا چاہئے) آپ ﷺ نے ارشاد فریاما "الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ" (یعنی نفع کا مستحق وہی ہے جو نقصان کا ضامن ہے)۔ (سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
خرید و فروخت کا معاملہ فسخ کرنے کی اختیار کی دو صورتوں کا ذکر مندرجہ بالا حدیثوں میں آ چکا ہے ایک "خیارِ شرط" دوسرے "خیار مجلس" ایک تیسری شکل یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز میں کوئی عیب معلوم ہو جائے جو پہلے معلوم نہیں تھا، اس صورت میں بھی خریدار کو معاملہ فسخ کرنے کا اختیار ہو گا، اس کی ایک مثال وہ ہے جو حضرت عائشہؓ کی مندرجہ ذیل حدیث میں ذکر کی گئی ہے۔ تشریح ..... حدیث کے آخر میں آپ ﷺ کا ارشاد "الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ" شریعت کے ان اصولی قواعد میں سے ہے جن سے فقہاء نے سینکڑوں مسئلوں کا حکم نکالا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ منفعت کا مستحق وہی ہوتا ہے جو نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر بالفرض غلام خریدنے والے کے پاس یہ مر جاتا یا کسی حادثہ سے اس کا کوئی عضو ٹوٹ پھوٹ جاتا تو یہ نقصان خریدنے والے ہی کا ہوتا۔ اس لئے ان دونوں میں جو فائدہ خریدنے والے نے غلام سے اٹھایا وہ اس کا حق تھا لہذا اس کے معاوضے کا کوئی سوال نہیں۔ یہاں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا ایک واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے جس کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں نقل کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنا ایک غلام آٹھ سو درہم میں کسی شخص کے ہاتھ بیچا اور یہ وضاحت کر دی کہ اس غلام میں کوئی عیب نہیں ہے۔ بعد میں غلام خریدنے والے نے کہا کہ اس کو فلاں بیماری ہے جس کے بارے میں آپ نے بتلایا نہیں تھا (حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے غالبا کہا کہ یہ بیماری اس کو میرے ہاں نہیں تھی) بہرحال یہ مقدمہ خلیفہ وقت حضرت عثمان ؓ کی عدالت میں پیش ہوا۔ آپؓ نے معاملہ سن کے (اور یہ دیکھ کے کہ خریدار اس بات کے گواہ پیش نہیں کر سکتا کہ غلام کو یہ بیماری پہلے سے تھی) قانونِ شریعت کے مطابق حضرت ابنِ عمرؓ سے کہا کہ آپ قسم کے ساتھ یہ بیان دے دیں کہ غلام کو یہ مرض آپ کے ہاں نہیں تھا۔ حضرت ابنِ عمرؓ نے قسم کے ساتھ یہ بیان دینے سے معذرت کر دی اور اپنا غلام واپس لے لیا۔ پھر اللہ نے کیا کہ بیماری کا اثر ختم ہو کے غلام بالکل صحیح تندرست ہو گیا اور اس کے بعد وہی غلام حضرت ابنِ عمر ؓ نے پندرہ سو درہم میں فروکت کیا۔ ائمہ فقہاء کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ اگر خریدی ہوئی چیز میں کوئی عیب نکل آئے (جس کی وجہ سے اس کی قیمت اور حیثیت کم ہو جائے) تو یہ ثابت ہو جانے پر کہ یہ عیب خرید و فروخت کے معاملے سے پہلے کا ہے، خریدار کو معاملہ فسخ کر دینے اور خریدی ہوئی چیز واپس کر کے اپنی ادا کی ہوئی قیمت واپس لینے کا اختیار ہے۔ اسی کو "خیار عیب" کہا جاتا ہے۔
Top