معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1809
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الغَنَمَ»، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ» (رواه البخارى)
اجارہ (یعنی مزدوری اور کرایہ داری)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی پیغمبر بھیجے سب نے بکریاں چرائی ہیں، صحابہؓ نے عرض کیا اور حضرت آپ نے؟ فرمایا کہ ہاں میں نے بھی بکریاں چرائی ہیں، میں چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری)

تشریح
کسی کو اجرت اور مزدوری دے کر اپنا کام کرانا، یا استعمال کے لئے کسی کو اپنی چیز دے کر اس کا کرایہ لینا۔ شریعت اور فقہ کی زبان میں اس کو "اجارہ" کہا جاتا ہے اور یہ ان معاملات میں سے ہے جن ر انسانی تمدن کی بنیاد قائم ہے۔ اس موضوع سے متعلق چند حدیثیں ذیل میں درج کی جا رہی ہیں۔ تشریح ..... حضور ﷺ نے اس حدیث میں چند قیراط مزدوری پر مکہ والوں کی بکریاں چرانے کا اپنا جو واقعہ بیان فرمایا ہے یہ غالباً ابتدائی عمر کا ہے جب آپ ﷺ اپنے چچا خواجہ ابو طالب کے ساتھ رہتے تھے تو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے مزدوری پر مکہ والوں کی بکریاں چراتے تھے جس کے عوض آپ ﷺ کو چند قیراط مل جاتے تھے۔ یہی اس زمانہ میں آپ ﷺ کا ذریعہ معاش تھا۔ ایک قیراط، درہم کا قریباً بارہواں حصہ ہوتا تھا۔ بکریاں چرانا بڑا صبر آزما کام ہے اور اگر آدمی میں صلاحیت ہو تو اس سے اس کی بڑی تربیت ہوتی ہے۔ غرور اور تکبر جیسے رزائل کا علاج ہوتا ہے، صبر کی اور غصہ پینے کی عادت پڑتی ہے اور شفقت و ترحم کی مشق ہوتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سب پیغمبروں نے یہ کورس پورا کیا ہے۔ ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس طرح کی مزدوری نہ صرف جائز بلکہ سنتِ انبیاء ہے۔
Top