معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1816
عَنْ أَبِيْ أُمَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ وَالدَّيْنَ مَقْضِيٌّ وَالزَّعِيمَ غَارِمٌ» (رواه الترمذى وابوداؤد)
عاریت (منگنی)
حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ نے سے سنا آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے کہ عاریت (والی چیز لازماً) واپس کی جائے۔ اور منحہ (یعنی جو چیز فائدہ اٹھانے کے لئے دی گئی ہو وہ عرف کے مطابق فائدہ اُٹھا کر مالک کو) لوٹائی جائے گی۔ اور قرض (حسب قرار داد) ادا کرنا ہو گا۔ اور کفالت کرنے والا ادائیگی کا ذمہ دار ہو گا۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیث میں شریعت کے چار حکم بیان کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اپنی ضرورت اور استعمال کے لئے کسی کی کوئی چیز عاریت کے طور پر لی جائے تو اس کا واپس کرنا لازم ہے، اس میں تساہل نہیں کرنا چاہیے۔ دوسرا حکم یہ بیان فرمایا گیا کہ "منحہ" کا لوٹانا ضروری ہے۔ عرب میں رواج تھا کہ فیاض اور فراخ حوصلہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی توفیق دیتا اپنی ملکیت کی کوئی چیز صرف فائدہ اٹھانے اور استعمال کرنے کے لئے دوسرے کسی بھائی کو دے دیتے۔ مثلاً اپنا اونٹ سواری کے لئے یا اونٹنی یا بکری دودھ پینے کے لئے دے دیتے تھے کہ اس کو اپنے پاس رکھو اور کھلاؤ پلاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ، یا پھلوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنا باغ یا کاشت کے لئے اپنی زمین بغیر کسی معاوضہ کے دے دیتے۔ اس کو "منحہ"کہا جاتا تھا۔ تو اس کے بارے میں حکم دیا گیا کہ جس شخص کو "منحہ" کے طور پر کوئی چیز دی گئی وہ اس کو اپنی مِلک نہ بنا لے بلکہ عرف کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا کے اصل مالک کو واپس کر دے۔ بلاشبہ بڑا مبارک تھا یہ رواج اور کچھ دن پہلے تک ہمارے علاقوں میں بھی یہ رواج تھا۔ لیکن اب اس طرح کی ساری خوبیاں اور نیکیاں اٹھتی اور مٹتی جا رہی ہیں، خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور دورہ ہے۔ فالى الله المشتكى تیسرا حکم اس حدیث میں یہ بیان فرمایا گیا کہ جس کسی نے اللہ کے کسی بندہ سے قرض لیا ہو وہ اس کے ادا کرنے کا اہتمام کرے۔ (قرض کی ادائیگی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے سخت تاکیدی ارشادات اور شدید وعیدیں، اسی سلسلہ معارف الحدیث میں قرض کے زیر عنوان پہلے ذخر کی جا چکی ہیں)۔ چوتھا حکم یہ بیان فرمایا گیا کہ کسی شخص کے ذمہ اگر کسی دوسرے کا قرض یا کسی قسم کا مالی حق ہو اور کوئی اس کا کفیل اور ضامن بن جائے تو وہ ادائیگی کا ذمہ دار ہے، یعنی اگر بالفرض اصل مدیون ادا نہ کرے تو اس کفیل اور ضامن کو ادا کرنا پڑے گا۔
Top