معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1834
عَنِ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالاً قَطُّ هُوَ أَنْفَسُ عِنْدِي مِنْهُ فَمَا تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ: إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا. قَالَ فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لاَ يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلاَ يُوهَبُ وَلاَ يُورَثُ. وَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ وَفِي الْقُرْبَى وَفِي الرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالضَّيْفِ لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ. (رواه البخارى ومسلم)
وقف فی سبیل اللہ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ میرے والد ماجد حضرت عمر ؓ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی ہے (وہ نہایت نفیس اور قیمتی ہے) اس سے بہتر کوئی مالیت میں نے نہیں پائی، آپ ﷺ س بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہو تو ایسا کرو کہ اصل زمین کو محفوظ (یعنی وقف) کر دو اور (س کی پیداوار اور آمدنی کو) صدقہ قرار دے دو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس کو (اسی طرح وقف کر دیا اور) فی سبیل اللہ صدقہ قرار دے دیا اور طے فرما دیا کہ یہ زمین نہ کبھی بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے نہ اس میں وراثت جاری ہو، اور اس کی آمدنی اللہ کے واسطے خرچ ہو فقیروں، مسکینوں اور اہلِ قرابت پر اور غلاموں کو آزاد کرانے کی مد میں اور جہاد کے سلسلہ میں اور مسافروں اور مہمانوں کی خدمت میں۔ اور جو شخص اس کا متولی اور منتظم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ مناسب حد تک اس میں سے خود کھائے اور کھلائے بشرطیکہ اس کے ذریعہ مال جوڑنے اور مالدار بننے والا نہ ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ہدیہ اور صدقہ و خیرات جیسے باعثِ ثواب مالی معاملات و تصرفات میں سے ایک وقف بھی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عرب کے لوگ رسول اللہ ﷺ سے پہلے وقف کے تصور اور طریقہ سے واقف نہیں تھے، آپ ﷺ ہی نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی سے اس کی تعلیم و ترغیب دی۔ وقف کی حقیقت یہ ہے کہ جائیداد جیسی باقی رہنے والی اپنی کوئی مالیت، جس کا نفع جاری رہنے والا ہو اپنی طرف سے مصارف خیر کے لئے محفوظ کر دی جائے۔ اس کی پیداوار یا آمدنی وقف کرنے والے کی منشاء کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ مصارف خیر میں صرف ہوتی رہے، اور خود وقف کرنے والا اپنے مالکانہ حق تصرف سے ہمیشہ کے لئے دَست بردار ہو جائے اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھی جائیں۔ تشریح ..... یہ حدیث وقف کے باب میں اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ ۷؁ھ میں خیبر جنگ کے نتیجہ میں فتح ہوا تھا، وہاں کی زمین عام طور سے بڑی زرخیز تھی، فتح کے بعد اس کی زمینوں کا قریبا نصف حصہ رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔ حضرت عمر ؓ کے حصہ میں جو قطعہ زمین آیا انہوں نے محسوس کیا کہ میری ساری مالیت میں وہ نہایت قیمتی اور گرانقدر چیز ہے۔ اور قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ "لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ" (تم نیکی اور مقبولیت کا مقام اس وقت تک حاصل نہیں سکو گے جب تک کہ اپنی محبوب و مرغوب چیزیں راہِ خدا میں صرف نہ کر دو گے) اس بناء حضرت عمر ؓ کے دل میں یہ آیا کہ خیبر کی یہ جائیداد جو میرے حصہ میں آئی ہے اور س سے بہتر قیمتی کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے میں اس کو فی سبیل اللہ خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور سعادت حاصل کر لوں۔ لیکن خود فیصلہ نہیں کر سکے کہ اس کے فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی میرے لئے سب سے بہتر صورت کیا ہے۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے بارے میں رہنمائی چاہی۔ تو آپ ﷺ نے ان کو وقف کرنے کا مشورہ دیا تا کہ وہ صدقہ جاریہ رہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس کو وقف کر دیا اور اس کے مصارف بھی متعین فرما دئیے۔ یہ مصارف قریب قریب وہی ہیں جو قرآن پاک میں زکوٰۃ کے بیان مٰں فرمائے گئے ہیں۔ (سورہ توبہ، آیت ۶۰) آخر میں وقف کے متولی اور اس کا انتظام و اہتمام کرنے والے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لئے تو اس میں سے کچھ نہ لے لیکن کھانے پینے اور اپنے اہل و عیال اور مہمانوں وغیرہ کو کھلانے کے لئے اس میں سے بحد مناسب لے سکتا ہے، یہ اس کے لئے جائز ہے۔ (شریعت کے دوسرے ابواب کی طرح وقف کے مسائل بھی کتب فقہ میں دیکھے جائیں)
Top