معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1836
عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ قَالَ أَنْشُدُكُمْ اللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ فَقَالَ: مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلُ دَلْوَهُ مَعَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ. فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ. قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ. فَقَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلاَنٍ فَيَزِيدُهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ. فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهَا رَكْعَتَيْنِ. فَقَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ. ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى ثَبِيرِ مَكَّةَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ حَتَّى تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيضِ قَالَ فَرَكَضَهُ بِرِجْلِهِ قَالَ: اسْكُنْ ثَبِيرُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ. قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ شَهِدُوا لِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ أَنِّي شَهِيدٌ ثَلاَثًا. (رواه الترمذى والنسائى)
وقف فی سبیل اللہ
ثمامہ بن حزن قشیری (تابعی) نے بیان کیا کہ میں اس وقت حضرت ؓ کے گھر کے قریب موجود تھا(جب بایوں کے لشکر نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا) تو انہوں نے مکان کے اوپر سے ان کو دیکھا اور مجمع سے مخاطب ہو کر کہا، میں تم کو اللہ اور اسلام کا واسطہ دیتا ہوں اور تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بات تمہارے علم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو "بیر رومہ" کے علاوہ میٹھے پانی کا کوئی کنواں نہیں تھا (اور وہ کسی شخص کی ملکیت) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی ہے اللہ کا بندہ جو بیر رومہ کو خرید کے عام مسلمانوں کے لئے وقف کر دے کہ اس کی طرح عام مسلمانوں کو اس سے پانی لینے کا حق ہو اور اللہ تعالیٰ جنت میں اس کو اس سے بہتر دے، تو میں نے اپنی ذاتی رقم سے اس کو خرید لیا (اور وقف عام کر دیا) اور آج تم مجھے اس کا پانی بھی نہیں پینے دیتے اور مجبور کرتے ہو کہ سمندر کا ساکھاری پانی پیئوں۔ لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں خداوندا! (ہم کو اس کا علم ہے) اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں تم کو اللہ کا اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ مسجد نبوی نمازیوں کے لئے بہت تنگ ہو گئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ اللہ کا کوئی بندہ ہے جو فلاں گھرانے کی زمین کا قطعہ (جو مسجد کے قریب ہے) خرید کے مسجد میں شامل کر دے، تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ جنت میں اس سے بہتر اس کو عطا فرمائے، تو میں نے اپنی ذاتی رقم سے اس کو خرید لیا تھا (اور مسجد میں شامل کر دیا تھا) اور آج تم لوگ مجھے اس میں دو رکعت نماز بھی نہیں پڑھنے دیتے ہو۔ تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ خداوندا! یہ بھی ہمارے علم میں ہے، اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کہا کہ کیا تم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ (رسول اللہ ﷺ کی ترغیب و ایماء پر) تبوک کے لشکر کا ساز و سامان میں نے اپنی ذاتی رقم سے کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ خداوندا یہ بھی ہمارے علم میں ہے۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں خدا کا اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ واقعہ تمہارے علم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر اور عمر تھے اور میں بھی تھا تو پہاڑ ملنے لگا یہاں تک کہ کچھ پتھر اس کے نیچے گر گئے تو آپ ﷺ نے اس پر اپنے قدم شریف سے ضرب لگائی اور فرمایا ثبیر ساکن ہو جا! تیرے اوپر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں۔ (حضرت عثمانؓ کی اس بات کے جواب میں بھی) لوگوں نے کہا کہ خداوند ا! ہاں ہم کو اس کا بھی علم ہے۔ اس وقت حضرت عثمانؓ نے کہا "اللہ اکبر! ربِ کعبہ کی قسم یہ لوگ بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ میں شہید ہوں"۔ یہ بات حضرت عثمانؓ نے تین دفعہ فرمائی۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی)

تشریح
اس حدیث میں حضرت عثمان ؓ کے دو وقفوں کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ترغیب اور اپیل پر آپؓ نے کئے۔ پہلے بیر رومہ کا وقف جو غالباً اسلام میں سب سے پہلا وقف ہو گا کیوں کہ وہ اس وقت عمل میں آیا جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے، اس سے پہلے مکہ معظمہ میں کسی وقف کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرا وقف اس زمین کا جو انہوں نے خرید کر مسجد نبوی میں شامل کی۔ یہ حدیث جیسا کہ ظاہر ہے حضرت عثمان ؓ کے فضائل و مناقب کے باب کی ہے اور اکثر کتب حدیث میں اسی باب کے تحت درج کی گئی ہے لیکن چونکہ اس میں حضرت عثمانؓ کے دو وقفوں کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ترغیب پر کئے گئے تھے اس لئے یہاں اس کا درج کرنا مناسب سمجھا گیا۔ اس حدیث میں عبرت کا بڑا سامان ہے، حضرت عثمان ؓ کے ان فضائل و مناقب اور ان کارناموں سے اور ن بشارتوں سے جو رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق میں دی تھیں۔ ان کے زمانہ کے لوگ عام طور سے واقف تھے۔ اور یہ باتیں ایسی مشہور و مسلم تھیں کہ کسی کو انکار کی مجال نہیں تھی لیکن جن لوگوں پر شیطان سوار تھا اور جن کے لئے شقاوت مقدر ہو چکی تھی انہوں نے اس سب کے باوجود حضرت عثمان ؓ کو نہایت ظالمانہ طریقہ سے شہید کیا۔ اور پھر امت پر اس کااجتماعی عذاب یہ آیا کہ باہم قتل و قتال کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا۔
Top