معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1840
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حِجَّةِ الْوَدَاعِ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ. (رواه ابوداؤد وابن ماجه)
وصیت
حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ ﷺ خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ ﷺ نے اس میں فرمایا کہ اللہ تعالی نے (اپنی کتاب پاک میں وارثوں میں سے) ہر صاحب حق کو اس کا حصہ عطا فرما دیا ہے۔ لہذا اب کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ (سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے کے بعد جب معاشرت وغیرہ سے متعلق احکام کا نزول شروع ہوا تو ابتدا سورت بقرہ کی آیت ۱۸۰ (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ الآية) کے ذریعے یہ حکم دیا گیا تھا کہ جس شخص کے پاس کچھ مال و دولت ہو اس کو چاہیے کہ مرنے سے پہلے اپنے ماں باپ اور دوسرے قریبی عزیزوں کے لئے وہ مناسب طریقہ پر وصیت کر جائے اسکے کچھ مدت بعد اللہ تعالی کی طرف سے وراثت کا مفصل قانون سورہ نساء میں نازل فرما دیا گیا اس طرح وصیت کا پہلا حکم کم ازکم شرعی وارثوں کے حق میں منسوخ ہوگیا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں جہاں اور بہت سے ضروری احکام کا اعلان فرمایا وہاں یہ اعلان بھی فرمایا کہ اللہ تعالی نے وراثت کا قانون نازل فرما کر سب وارثوں کا حق مقرر فرما دیا ہے لہذا اب کسی وارث کے لیے وصیت نہ کی جائے۔ حضرت ابو امامہ ؓٗ نے اس حدیث میں اسی کا ذکر فرمایا اور مشکاۃ المصابیح میں حضرت ابو امامہؓ کی مندرجہ بالا حدیث سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد آخر میں یہ اضافہ ہے۔ وَفِىْ رِوَايَةِ الدَّارَ قُطْنِىْ قَالَ لاَ تَجُوزُ الْوَصِيَّةُ لِوَارِثٍ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ الْوَرَثَةُ اور دارقطنی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ فرمایا کیا اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز (اور نافذ) نہیں الا یہ کہ دوسرے وارث چاہیں اور راضی ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے شرعی وارث اس پر راضی ہو جائیں گے کہ مورث کسی وارث کے حق میں (اس کے شرعی حصے کے علاوہ مزید کی) وصیت کر دے اور ان کو اس پر اعتراض نہ ہو تو یہ وصیت جائز اور نافذ ہو جائے گی (بشرطیکہ یہ دوسرے وارث عاقل بالغ ہوں)
Top