معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1842
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ابْنُ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا. (رواه مسلم)
نظام عدالت: عادل اور غیر عادل حاکم و قاضی
حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (اہل حکومت اور ارباب اقتدار میں سے) عدل و انصاف کرنے والے بندے اللہ تعالی کے ہاں (یعنی آخرت میں) نور کے منبروں پر ہونگے اللہ تعالی کے داہنی جانب۔ اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہونگے جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال اور متعلقین کے معاملات میں اور اپنے اختیارات کے استعمال کے بارے میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔(صحیح مسلم)

تشریح
لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے مختلف قسم کے نزاعات و خصومات کا فیصلہ کرنے اور حق داروں کو ان کا حق دلوانے میں تعزیر و سزا کے مستحق چوروں ڈاکوؤں جیسے مجرموں کو سزا دینے کے لئے پر محکمہ قضا یعنی نظام عدالت کا قیام بھی انسانی معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انسانی معاملات کے دوسرے ابواب کی طرح اس باب میں بھی اپنے طرز عمل اور ارشادات سے پوری رہنمائی فرمائی ہے۔ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ کی زندگی میں تو اس کا سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن جب آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب ہجرت کرکے مدینہ منورہ آ بسے اور یہاں اجتماعیت کی ایک شکل پیدا ہوگی تو اس وقت نظام عدالت بھی اپنی ابتدائی سادہ شکل میں قائم ہوگیا۔ خود رسول اللہ ﷺ نبی و رسول ہونے کے ساتھ قاضی اور حاکم عدالت بھی تھے۔ نزاعی معاملات آپ ﷺ کے سامنے آتے اور آپ ﷺ ان کا فیصلہ فرماتے حدود جاری کرتے یعنی سزا کے مستوجب مجرمین کو قانون خداوندی کے مطابق سزائیں دلواتے۔ قرآن مجید میں براہ راست آپ ﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ (المائده آيت: 49) (اے پیغمبر!) آپ لوگوں (کے نزاعات و معاملات) کا فیصلہ اللہ کی نازل کی ہوئی ہدایت اور اس کے قانون کے مطابق کیا کریں۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا: إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّـهُ (النساء آيت: 105) ہم نے نازل کی آپ کی طرف کتاب حق (کی ہدایت) کے ساتھ تاکہ آپ لوگوں کے باہمی معاملات کا فیصلہ کریں اللہ کی رہنمائی کے مطابق۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نزاعات و خصومات کے فیصلے خود فرماتے تھے نیز بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں آپ ﷺ کے حکم سے حضرت عمر ؓ بھی مدینہ طیبہ میں قاضی کی حیثیت سے مقدمات کے فیصلے فرماتے تھے اور جب یمن کا علاقہ بھی اسلامی اقتدار کے دائرہ میں آگیا تو آپ ﷺ نے حضرت علی اور حضرت معاذ ؓ کو بھی وہاں قاضی بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ نے ان لوگوں کو جو کسی علاقہ میں عدل و انصاف کے ذمہ دار (قاضی) بنائے جائیں سخت تاکید فرمائی کہ وہ اس ذمہ داری کو اپنے مکان اور اپنی فہم و فکر کی آخری حد تک عدل و انصاف اور خدا ترسی کے ساتھ انجام دینے کی پوری کوشش کریں اور ایسا کرنے والوں کو آپ ﷺ نے خدا کی مدد اور رہنمائی کی اورآخرت میں عظیم انعامات اور بلند درجہ کی بشارت سنائیں اور یہ بھی فرمایا کہ اگر بالفرض ایسے لوگوں سے نادانستہ اجتہادی غلطی بھی ہو جائے گی تو اس پر مواخذہ نہیں ہو گا بلکہ اپنی نیک نیتی اور حق سمجھنے کی محنت و کوشش کا ان کو اجر و ثواب ملے گا۔ اور اس کے بالمقابل آپ ﷺ نے جانبداری اور بے انصافی کرنے والے حاکموں کو اللہ تعالی کے قہر و غضب سے ڈرایا اور سخت وعید سنائیں۔ نیز آپ ﷺ نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ حاکم اور قاضی ایسے بندگان خدا کو بنایا جائے جو اس منصب اور عہدہ کے خواہشمند نہ ہوں اور جو لوگ اس کے طالب اور خواہشمند ہوں ان کو ہرگز یہ منصب اور عہدہ نہ دیا جائے۔ قضاء اور عدالت کے طریقہ کار کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے رہنمائی فرمائی اور اس کے لئے کچھ بنیادی اصول بھی تعلیم فرمائے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیث میں پڑھی جائیں۔ اس حدیث میں ان اہل حکومت اور ارباب اختیار کو جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اختیارات کے استعمال اور سارے معاملات میں عدل و انصاف کا اہتمام اور اس کی پابندی کریں یہ عظیم بشارت سنائی گئی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالی کی طرف سے ان کا یہ اعزاز و اکرام ہو گا کہ وہ اس کے داہنی جانب نور کے منبروں پر بِٹھائے جائیں گے۔ اس دنیا کے شاہی درباروں میں کسی کی کرسی کا تخت شاہی کے داہنی جانب ہونا اس کے خاص الخاص اعزاز و اکرام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس بنا پر اس حدیث کا مقصد و مدعا یہ ہوگا کہ جو بندے برسر حکومت اور صاحب اختیار ہونے کے ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کی پوری پابندی کریں تو آخرت میں اللہ تعالی کے دربار میں ان کے ساتھ ایسا ہی خاص الخاص اعزاز و اکرام ہوگا ان کی نورانی نشست گاہیں (ممبر کہیے یا کرسیاں) اللہ تعالی کی داہنی جانب ہونگی۔ حدیث کے لفظ "عن يمين الرحمن" (خداوند رحمن کے داہنی جانب) سے شبہ ہوسکتا تھا کہ جس طرح ہم لوگوں کے داہنے ہاتھ کے ساتھ دوسرا بایاں ہاتھ ہوتا ہے (جو داہنے ہاتھ کے مقابلے میں کمزور اور کم تر ہوتا ہے) اسی طرح خداوند رحمن کا بھی دوسرا بایاں ہاتھ ہوگا۔ تو رسول اللہ ﷺ کی اس وضاحت سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ اس حدیث میں یا اس طرح کی دوسری احادیث یا قرآنی آیات میں اللہ تعالی کے لیے جو "یمین" یا "ید" (ہاتھ کیا داہنے ہاتھ) کے الفاظ میں کہیں استعمال ہوئے ہیں ان سے ہمارے جیسے ہاتھ مراد نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے"ليس كمثله شيئ" (کوئی چیز بھی اللہ کی مثل یا مثال نہیں ہے) رہی یہ بات کہ پھر "ید" جیسے الفاظ سے کیا مراد ہے؟ تو اس کے بارے میں ائمہ سلف کے اس مسئلہ میں زیادہ سلامتی اور احتیاط ہے کہ ہم اس کا اعتراف اور اقرار کریں کہ اللہ تعالی کی ذات و صفات کی نوعیت اور حقیقت کی دریافت سے ہم عاجز ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ ہیں "الذين يعدلون فى حكمهم واهليهم وما ولوا" یعنی یہ بشارت ان عادل و منصف بندوں کے لئے ہے جو اپنے عدالتی اور حکومتی فیصلوں میں انصاف کریں اور اپنے اہل و عیال اور اہل تعلق کے ساتھ بھی ان کا رویہ عادلانہ اور منصفانہ ہو اور اگر وہ کسی کے ولی اور سرپرست ہوں یا کسی جائیداد یا ادارے کے متولی اور ذمہ دار ہوں تو اس کے معاملات میں بھی عدل وانصاف کے تقاضوں کی پابندی کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عدل و انصاف کا حکم اور اس پر بشارت کا تعلق صرف ارباب حکومت اور حاکمان عدالت ہی سے نہیں ہیں بلکہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں ہر شخص اس کا مکلف ہے۔
Top