معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1860
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ اللهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ» فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «وَإِنْ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ» (رواه مسلم)
جھوٹے دعوے اور جھوٹی قسم والوں کا ٹھکانہ جہنم
حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا کوئی حق مارا (اور عدالتی فیصلے سے اسکی کوئی چیز حاصل کرلی) تو اللہ نے اس شخص کے لئے دوزخ واجب کردی ہے اور جنت حرام۔ ایک شخص نے سوال کیا یارسول اللہ اگرچہ وہ چیز بالکل معمولی اور تھوڑی سی ہو (تب بھی یہی سزا ہوگی؟)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگرچہ)(جنگلی درخت) پیلو کی ایک ٹہنی ہی ہو۔(صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے عدالت میں جھوٹی قسم کھا کے کسی دوسرے بندے کی بالکل معمولی اور بے قیمت چیز بھی حاصل کی تو اس نے بھی اتنا بڑا گناہ کیا جس کی سزا میں اس کو دوزخ کا عذاب ضرور بھگتنا ہوگا اور مومنین صالحین والی جنت سے محروم رہے گا۔ حدیث میں "مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ" فرمایا گیا یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مدینہ منورہ کا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہی تھا اور آپ صلی اللہ وسلم کے سامنے عموما مسلمانوں ہی کے باہمی مقدمات آتے تھے ورنہ کسی غیر مسلم کی چیز بھی جھوٹی قسم کھا کر حاصل کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی چیز حاصل کرنا۔ اس کی واضح دلیل قرآن پاک کی وہ آیت ہے جس کا حوالہ خود رسول اللہ ﷺ نے (ایک حدیث میں جو پہلے سے درج ہو چکی ہیں) جھوٹی قسم کے عذاب ہی کے سلسلہ میں دیا ہے۔ یعنی "إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَـٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ" (آل عمران 77)
Top