معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1865
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَطَاعَنِي، فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي، فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ يُطِعِ الأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ يَعْصِ الأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي، وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ، فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَعَدَلَ، فَإِنَّ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرًا وَإِنْ قَالَ بِغَيْرِهِ فَإِنَّ عَلَيْهِ مِنْهُ» (رواه البخارى ومسلم)
نظام حکومت......... خلافت وامارت: عوام کو امیر کی اطاعت اور امیر کو تقوی اور عدل کی ہدایت
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے امیر کی فرماں برداری کی اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ اورامام (یعنی اسلامی حکومت کا سربراہ) سپر اور ڈھال ہیں قتال کیا جاتا ہے اس کے پیچھے سے اور اس کے ذریعہ بچاو کیا جاتا ہے پس اگر وہ خدا ترسی اور پرہیزگاری کا حکم کرے اور عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرے تو اس کے لیے اس کا بڑا اجر و ثواب ہے اور اگر وہ اس کے خلاف بات کرے تو اس پر اس کا وبال و عذاب پڑے گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
جیساکہ معلوم ہے اسلام انسانی زندگی کے سارے ہی شعبوں پر حاوی ہے وہ عقائد و ایمانیات عبادات اخلاق آداب معاشرت اور معاملات کی طرح نظام حکومت کے بارے میں بھی اپنے پیروؤں کی رہنمائی کرتا اور احکام و ہدایات دیتا ہے بلکہ سلطنت و حکومت کا شعبہ اس کا اہم ترین شعبہ ہے کیونکہ دوسرے بہت سے شعبوں کا وجود اس سے وابستہ اور اسی پر موقوف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے طرز عمل اور ارشادات اس شعبہ کے بارے میں بھی امت کی پوری رہنمائی فرمائی ہے۔ ہجرت کے بعد جب مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کی اجتماعیت کی ایک شکل پیدا ہوگئی تو غیر رسمی طور پر ایک چھوٹی سی حکومت بھی قائم ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ اللہ کے نبی و رسول ہونے کے ساتھ اس حکومت کے سربراہ اور فرمانروا بھی تھے ہجرت کے بعد قریبا دس سال آپ ﷺ اس دنیا میں رہے اس مدت میں اس حکومت کا دائرہ اقتدار برابر وسیع ہوتا رہا اور تیزی سے وسیع ہوا یہاں تک کہ حیات مبارک کے آخری دور میں پورا عرب بلکہ یمن اور بحرین کے علاقے بھی اس حکومت کے زیر اقتدار آگئے۔ ان دس سالوں میں اس دور کے معیار کے مطابق وہ سب ہی کام اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ہاتھوں سے کرائے جو حکومت کے سربراہوں ہی کے کرنے کے ہوتے ہیں" آپ ﷺ نے اعلاء کلمۃ اللہ اور اللہ کے بندوں پر اللہ ہی کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے اس کے راستے میں روکاوٹ ڈالنے والے دشمن طاقتوں سے جہاد بھی کیا اس سلسلے میں فوجی مہمیں اور فوجی دستے بھی بھیجے۔ صلح کے معاہدے بھی کئے جزیہ اور خراج اور زکوۃ کی وصولی کا نظام بھی قائم فرمایا۔ زیر اقتدار آ جانے والے علاقوں میں قاضی" والی اور عامل بھی مقرر کیے اور ان سب کاموں کے بارے میں آپ ﷺ کی ہدایات میں اسلامی حکومتوں اور ان کے سربراہوں کے لیے اصولی درجہ میں پوری رہنمائی موجود ہے۔ آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے تربیت یافتہ خواص و اصحاب ورفقاء میں سے جو چار حضرات کے یکے بعد دیگرے اس حکومتی نظام کو چلانے میں آپ صلی اللہ وسلم کے جانشین ہوئے۔ (حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر فاروق حضرت عثمان ذی النورین حضرت علی مرتضیٰ ؓ) انہوں نے اپنے زمانے کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے امکان بھر اس کی کوشش کی کہ حکومت سے متعلق سارے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے طور طریقوں اور آپ ﷺ کی ہدایات کی پوری پابندی اور پیروی کی جائے ان کا یہی وہ امتیاز ہے جس کی وجہ سے ان کو "خلفائے راشدین" کہا جاتا ہے "خلافت راشدہ" وہی حکومت ہے جس میں آپ ﷺ کی ہدایات اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی حتی الامکان پوری پابندی و پیروی کی جائے۔ اس تمہید کے بعد نظام حکومت و امارات سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھے جائیں۔ انہیں سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اسلامی حکومت اور اس کے سربراہ کی کیا خاص ذمہ داریاں ہیں اور عام مسلمانوں کا رویہ ان کے ساتھ کیسا رہناچاہئے۔ تشریح .....قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے "مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ" (جس نے اللہ کے رسول کی فرماں برداری کی اس نے اللہ کی فرماں برداری کی) کیوں کہ اللہ کے رسول جو احکام دیتے ہیں وہ اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہوتے ہیں اور خود اللہ تعالی کی طرف سے اس کی فرمابرداری کا حکم ہے اس لئے ان کے احکام کی تعمیل اللہ تعالی کے احکام اور ان کی نافرمانی اللہ تعالی کی نافرمانی ہے۔ پھر چونکہ اللہ ہی کے حکم سے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت یہ ہے کے امیر کی اطاعت کی جائے اور اس کا حکم مانا جائے (بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو) تو امیر کی اطاعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہوگی اور اس کی نافرمانی رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی ہوگی) ملحوظ رہے کہ عربی میں خاص کر قرآن وحدیث کی زبان میں امیر کے معنیٰ حکمران کے ہیں۔ بظاہر حضور ﷺ کے اس ارشاد کا خاص مقصد ومدعا امیر (حاکم وقت) کی اطاعت فی المعروف کی اہمیت جتلانا ہے کہ اس کی فرماں برداری اور نافرمانی اللہ کے رسول کی اور بالواسطہ خود اللہ تعالی کی فرماں برداری اور نافرمانی ہے۔ آگے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ امیر بمنزلہ سپر اور ڈھال کے ہے سپر اور ڈھال کے ذریعہ اپنی حفاظت اور دشمن کے حملہ سے بچاؤ کیا جاتا ہے اسی طرح امام وقت (اسلامی حکومت کا سربراہ) مسلمانوں کا اور دین کا محافظ اور پاسبان ہے یہ حفاظت اور دفاع اس کی خاص ذمہ داری ہے۔ اس سلسلہ میں جہاد و قتال کی نوبت آئے گی۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کی وفاداری اور اطاعت کریں اس کے حکم کو مانیں اس کے بغیر وہ دفاع اور حفاظت کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ اگر میں ان امراء (اصحاب حکومت) کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ وہ تقوی اور عدل و انصاف کو لازم پکڑیں یعنی ہمیشہ یہ بات ان کے پیش نظر رہے کہ خدا ہر وقت اور ہر حال میں ہم کو دیکھ رہا ہے اور قیامت میں اس کے حضور میں پیشی ہوگی اور امیر و حاکم کی حیثیت سے جو کچھ ہم نے یہاں کیا ہوگا اس کا بڑا سخت محاسبہ ہوگا اس سے کبھی غافل نہ ہوں اور عدل و انصاف پر قائم رہنے کی پوری کوشش کریں۔ اگر ایسا کریں گے تو آخرت میں بڑا اجر پائینگے اور اگر اس کے خلاف چلیں گے تو اسکا شدید عذاب و وبال بھگتنا پڑے گا۔
Top