معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1868
عَنِ مَعْقِلِ بْنَ يَسَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللهُ رَعِيَّةً، فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ، إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ» (رواه البخارى ومسلم)
امیر کو عوام کی خیرخواہی کی تاکید
حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے ثنا فرماتے تھے کہ جس بندہ کو اللہ کسی رعیت کا راعی (یعنی حاکم و نگران) بنائے اور وہ اس کی خیر خواہی پوری پوری نہ کرے تو وہ حاکم جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امیر اور حکمران کا فرض ہے کہ جو لوگ اس کے زیر حکومت ہیں ان کی خیرخواہی اور خیراندیشی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے اگر عوام کی خیر خواہی میں کوتاہی کرے گا تو جنت سے بلکہ اس کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ اس حدیث میں اس کے علاوہ بعض حدیثوں میں بھی امیر یعنی صاحب حکومت کو "راعی" اور اس کے زیر حکومت عوام کو "رعیت" کہا گیا ہے۔ اصل عربی زبان میں راعی کے معنی چرواہے اور نگہبان کے ہیں اور "رعیت" وہ ہے جس کو وہ چرائے اور جس کی حفاظت و نگہبانی اس کے ذمہ ہو۔ صرف یہ دو لفظ یہ بتلانے کے لئے کافی ہیں کہ اسلام میں حکومت وامارت کا کیا تصور ہے اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ فرض شناس چرواہے ان جانوروں کو جن چرانا اور جن کی نگہبانی ان کے ذمہ ہوتی ہے سرسبز چراگاہوں میں لے جاتے ہیں درندوں اور چوروں رہزنوں سے ان کی حفاظت کرتے ہیں اور شام کو گھر واپس لاتے ہیں اس طرح ان کو کھلانا پلانا اور ان کی دیکھ بھال ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ ان حدیثوں نے بتلایا کہ اسلام میں یہی حیثیت خلیفہ اور حکمران کی ہے وہ عوام کا محافظ اور رکھوالہ ہے اور ان کی ضروریات کی فکر اس کی ذمہ داری ہے اور اگر وہ اس سلسلہ میں بے پرواہی برتے گا تو اللہ کے نزدیک مجرم ہوگا۔
Top