معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1875
عَنْ عِيَاضِ بْنُ غَنْمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْصَحَ لِذِىْ سُلْطَانٍ بِأَمْرٍ، فَلَا يُبْدِ لَهُ عَلَانِيَةً، وَلَكِنْ لِيَأْخُذْ بِيَدِهِ، فَيَخْلُوَ بِهِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْهُ فَذَالِكَ، وَإِلَّا كَانَ قَدْ أَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ» (رواه احمد)
بادشاہوں اور حکمرانوں کو نصیحت کا صحیح طریقہ
حضرت عیاض بن غنم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی صاحب حکومت کو کسی بات کی نصیحت کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ اعلانیہ (اور دوسروں کے سامنے) نصیحت نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تنہائی میں اپنی بات اس کے سامنے رکھے۔ پھر اگر وہ اس کو قبول کر لے اور مان لے تو فبہا (یعنی مقصد حاصل ہوگیا) اور اگر اس نے نصیحت قبول نہ کی تو اس نصیحت کرنے والے نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ (مسند احمد)

تشریح
بےشک حکمت نصیحت کا تقاضہ یہی ہے کہ خاص کر اہل حکومت اور اصحاب وجاہت کو نصیحت ان سے تنہائی میں ملاقات کرکے کی جائے یہ طرز عمل مخاطب کے دل میں یقین پیدا کرتا ہے کہ نصیحت کرنے والا مخلص اور میرا خیرخواہ ہے اور اگر اچھی بات کے قبول کرنے کی صلاحیت سے اس کا دل بالکل خالی اور محروم نہیں ہیں تو قبول کرنے کی پوری امید ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف اعلانیہ اور دوسروں کے سامنے نصیحت میں وہ اپنی توہین محسوس کر سکتا ہے اور اسکا رد عمل بہت برا بھی ہو سکتا ہے۔ رازدارانہ خط و کتاب کے ذریعہ نصیحت کرنا بھی تنہائی کی ملاقات ہی کے حکم میں ہے۔
Top