معارف الحدیث - کتاب العلم - حدیث نمبر 1884
عَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلًا قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلَيْنِ كَانَا في بَنِي إِسْرَائِيلَ: أَحَدُهُمَا كَانَ عَالِماً يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ، وَالآخَرُ يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَضْلُ هَذَا الْعَالِمِ الذي يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ عَلَى الْعَابِدِ الذي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ. (رواه الدارمى)
علم دین اور اس کے سیکھنے سکھانے والوں کا مرتبہ
حضرت حسن بصری نے بطریق سال روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایسے دو آدمیوں کے بارے میں دریافت کیا جن میں سے ایک کا معمول یہ تھا کہ وہ فرض نماز پڑھتا پھر بیٹھ کر لوگوں کو اچھی نیکی کی باتیں بتلاتا اور دین کی تعلیم دیتا اور دوسرے صاحب کا حال یہ تھا کہ وہ دن کو برابر روزہ رکھتے اور رات کو کھڑے ہو کر نوافل پڑھتے (آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا) کہ ان دونوں میں کون افضل اور اعلیٰ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ عالم جو فرض نماز ادا کرتا ہے پھر لوگوں کو دین اور نیکی کی باتیں سکھانے کے لیے بیٹھ جاتا ہے اس کو اس صائم النہار اور قائم اللیل عابد کے مقابلہ میں اس طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح کی تم میں سے کسی ادنیٰ آدمی پر مجھے فضیلت حاصل ہے۔ (مسند دارمی)

تشریح
مندرجہ بالا حدیثوں میں "علم"، "طالبین علم"، "علماء" اور "معلمین" کی جو غیر معمولی عظمتیں اور فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ان کی لم اور ان کا راز یہی ہے کہ علم اللہ تعالی کا نازل فرمایا ہوا نور ہدایت ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ آیا ہے اور دنیا سے آپ ﷺ کے اٹھا لئے جانے کے بعد آپ ﷺ کا لایا ہوا الہی علم (جو قرآن و حدیث میں ہے) امت کے لئے آپ ﷺ کی پیغمبرانہ ہستی کے قائم مقام ہے اور جو اس کے بعد حامل اور امین علما و معلمین ہیں وہ زندہ انسانوں کی شکل میں حضور صلی اللہ و علیہ وسلم کے قائم مقام ہے وہ نبی تو نہیں ہیں لیکن وارث انبیاء ہونے کی حیثیت سے کارنبوت سنبھالے ہوئے ہیں اور رسول پاک ﷺ ہی کا کام انجام دے رہے ہیں گویا آپ ﷺ کے دست و باز اور اعلی کار ہیں۔ اسی خصوصیت نے انکو اس مقام و مرتبہ پر پہنچا دیا ہے اور ان غیر معمولی انعامات الہیہ کا مستحق بنا دیا ہے جن کا مندرجہ بالا حدیثوں کے ذریعہ اعلان فرمایا گیا ہے لیکن جیسا کہ آگے درج ہونے والی متعدد حدیثوں سے معلوم ہوگا اس کی شرط یہ ہے کہ علم دین کی یہ طلب و تحصیل اور تعلیم و تدریس خالصا لوجہ اللہ اجر آخرت کے لئے ہو اگر خدانخواستہ یہ دنیوی اغراض کے لیے ہو تو بدترین معصیت ہے اور ایک صحیح حدیث کی صراحت کے مطابق ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا ایک ضروری وضاحت اس سلسلہ میں یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے ہمارے اس زمانے میں دینی مدارس اور دارالعلوموں کی شکل میں علم دین کی تحصیل و تعلیم کا جو نظام قائم ہے اس کی وجہ سے جب ہمارے دینی حلقوں میں طالب علم کا لفظ بولا جاتا ہے تو ذہن ان دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں ہی کی طرف جاتا ہے اسی طرح عالم دین یا معلم دین کا لفظ سن کر ذہنی اصطلاحی و عرفی علماء اور دینی مدارس میں تعلیم دینے والے اساتذہ ہی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور پھر اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا حدیثوں میں اور اسی طرح اس باب کی دوسری حدیثوں میں علم دین کی طلب و تعلیم یا طالبان علم دین اور معلمین دین کے جو فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والے جن غیر معمولی انعامات کی بشارت دی گئی ہیں ان سب کا مقصد ان مدارس ہی کے تعلیمی سلسلہ کو اور ان کے طلبا اور معلمین ہی کو سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے عہد نبوی میں اور اسکے بعد صحابہ کرامؓ بلکہ تابعین کے دور میں بھی اس طرح کا کوئی تعلیمی اور تدریسی سلسلہ نہیں تھا نہ مدارس اور دارالعلوم تھے نہ کتابیں پڑھنے اور پڑھانے والے طلبہ اور اساتذہ کا کوئی طبقہ تھا بلکہ سرے سے کتابوں ہی کا وجود نہیں تھا بس صحبت و سماع ہی تعلیم و تعلم کا ذریعہ تھا صحابہ کرامؓ نے (ان کے درجہ اول کے علماء و فقہاء مثلا خلفاۓراشدین، معاذ بن جبل، عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، زید بن ثابت وغیرہ ؓ اجمعین نے بھی) جو کچھ حاصل کیا صرف صحبت و سماع ہی کے ذریعہ حاصل کیا تھا اور بلاشبہ وہ حضرات ان حدیثوں اور بشارتوں کے اولین مصداق تھے۔ راقم سطور عرض کرتا ہے کہ آج بھی جو بندگان خدا کسی غیر رسمی طریقے سے مثلا صحبت و سماع ہی کے ذریعہ اخلاص کے ساتھ دین سیکھنے اور سکھانے کا اہتمام کریں وہ بھی یقینا ان حدیثوں کے مصداق ہیں اور بلاشبہ ان کے لیے بھی یہ سب بشارتیں ہیں۔ بلکہ ان کو اصطلاحی و عرفی طلباء اور معلمین پر ایک فضیلت و فوقیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ ہمارے موجودہ مدارس اور دارالعلوموں میں پڑھنے اور پڑھانے والے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے اس طلب و تعلیم کے کچھ دنیا بھی منافع بھی ہو سکتے ہیں (اور بس اللہ ہی جانتا ہے کہ اس لحاظ سے ہماری برادری کا کیا حال ہے) لیکن جو بے چارے اصلاح و ارشاد کی مجالس میں یا کسی بھی دینی حلقہ میں اپنی دینی اصلاح اور دین سیکھنے کی نیت سے شریک ہوتے ہیں یا دین سیکھنے سکھانے والے کسی جماعت کے ساتھ اس مقصد سے کچھ وقت گزارتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ اس سے کسی دنیوی منفعت کی توقع نہیں کر سکتے اس لئے ان کی غیر رسمی طالبعلمی یا معلمی بالکل بےغل و غش صرف اللہ ہی کے لئے اور آخرت ہی کے واسطے ہوتی ہے اللہ کے ہاں اسی عمل کی قدر و قیمت ہوتی ہے کیوں خالصا لوجہ اللہ ہو۔ اس عاجز نے اس زمانے میں بھی اللہ کے ایسے بندے دیکھے ہیں ان میں متعدد ایسے بھی پائے جن سے ہم جیسے لوگ (جن کو دنیا عالم فاضل سمجھتی ہے) حقیقت دین کا سبق لے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وضاحت یہاں اس لئے ضروری سمجھی کہ ہمارے اس زمانے میں "عالم"، "معلم" اور طالب علم کے مصداق کے بارے میں مذکورہ بالا غلط فہمی بہت عام ہیں اگرچہ غیر شعوری طور پر ہے۔
Top