معارف الحدیث - کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ - حدیث نمبر 1891
عَنْ عِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ. (رواه احمد وابوداؤد والترمذى وابن ماجة الا انهما لم يذكر الصلوة)
بدعت کیا ہے؟
حضرت عرباض بن ساریہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی پھر آپ ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہماری طرف رخ فرما لیا اور ایسا موثر وعظ فرمایا کہ اس کے اثر سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل خوفزدہ ہوکر دھڑکنے لگے تو ہم نے ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ تو گویا ایسا وعظ ہے جیسے الوداع کہنے والے اور رخصت ہونے والے کا وعظ ہوتا ہے (پس اگر ایسی بات ہے) تو پھر آپ ہم کو (ضروری امور کی) وصیت فرمایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں تم کو وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرتے رہنے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہنے کی اور اولوالامر (خلیفہ یا امیر) کا حکم سننے اور ماننے کی اگرچہ وہ کوئی حبشی غلام ہی ہو اس لیے کہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بڑے اختلافات دیکھے گا (تو ایسی حالت میں) تم اپنے اوپر لازم کر لینا میرے طریقے اور میرے خلفائے راشدین مہدیین کے طریقے کی پیروی و پابندی اور مضبوطی سے اس کو تھام لینا اور دانتوں سے پکڑ لینا اور (دین میں) نئی نکالی ہوئی باتوں سے اپنے کو الگ رکھنا اس لئے کہ دین میں نئی نکالی ہوئی ہر بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسند احمد سنن ابوداؤد جامع ترمذی سنن ابن ماجہ)

تشریح
ظاہر ہے کہ یہ حدیث کسی وضاحت اور تشریح کی محتاج نہیں اس کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے آخری دور حیات کا ہے آپ نے نماز کے بعد جو وعظ فرمایا اس کے غیر معمولی انداز سے اور اس میں آپ ﷺ نے جو ہدایات و آگاہیاں دیں ان سے صحابہ کرام نے اندازہ کیا کہ شاید آپ ﷺ پر منکشف ہوگیا ہے کہ اس دنیا سے آپ ﷺ کے رخصت ہونے کا وقت قریب ہے اس بنا پر آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپ ہم کو بعد کے لئے وصیت فرمایئے! آپ ﷺ نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے وصیت فرمائی سب سے پہلے تقوی کی یعنی خدا سے ڈرتے رہنے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہنے کی اس کے بعد دوسرے نمبر پر وصیت فرمائی کے خلیفہ اور امیر کے حکم کی بہرحال اطاعت کی جائے اگرچہ وہ کسی کمتر طبقہ کا آدمی ہو۔ دین میں تقوے کی اہمیت تو ظاہر ہے اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح اسی پر موقوف ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا میں امت کا اجتماعی نظام صحیح اور مضبوط طور پر قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ خلیفہ اور امیر کی اطاعت کی جائے اگر ایسا نہیں ہوگا تو انتشار و افتراق پیدا ہوگا اور انارکی پھیلے گی اور نوبت خانہ جنگی تک پہنچے گی (لیکن رسول اللہ ﷺ نے مختلف موقعوں پر بار بار یہ وضاحت فرمائی ہے) اگر امیر و خلیفہ اور کوئی بالاتر شخصیت کسی ایسی بات کا حکم دیے جو اللہ و رسول کے کسی حکم کے خلاف ہو تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی (لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق) تقوی اور اولوالامر کی اطاعت کی ہدایت و وصیت کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی میرے بعد زندہ رہے گا وہ امت میں بڑے اختلافات دیکھے گا۔ ایسے حالات میں نجات کا راستہ یہی ہے کہ میرے طریقہ کو اور میرے خلفائے راشدین مہدیین کے طریقہ کو مظبوطی سے تھام لیا جائے اور بس اس کی پیروی کی جائے اور دین میں پیدا کی ہوئی نئی نئی باتوں اور بدعتوں سے بچا جاۓ کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور صرف گمراہی ہے۔ یہ حدیث شریف حضور ﷺ کے معجزات میں سے ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی حیات مقدسہ میں ایسی حالت میں جب کہ کسی کو آپ ﷺ کی امت میں اختلاف و افتراق کا تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا فرما دیا تھا کہ تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بڑے بڑے اختلافات دیکھیں گے یہی ظہور میں آیا کہ آپ کے وہ اصحاب اورفقاء جو آپ کے بعد پچیس تیس سال بھی زندہ رہے انہوں نے امت کا یہ اختلاف آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اور اس کے بعد اختلافات میں اضافہ ہی ہوتا رہا اور آج جبکہ چودھویں صدی ہجری ختم اور پندرویں صدی شروع ہو چلی ہے امت کے اختلافات کا جو حال ہے وہ ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ اللہ تعالی حق و ہدایت اور آپ ﷺ کی سنت پر قائم رہنے کی توفیق دے۔
Top