معارف الحدیث - کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ - حدیث نمبر 1897
عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنَ التَّوْرَاةِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنَ التَّوْرَاةِ. فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ، أَمَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَمِنْ غَضَبِ رَسُولِهِ، رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِيناً وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لاَتَّبَعَنِي. (رواه الدارمى)
اس دور میں نجات کا واحد راستہ اتباع محمدی ہے
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن) حضرت عمر بن الخطاب ؓ تورات کا ایک نسخہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ یہ تورات کا ایک نسخہ ہے رسول اللہ ﷺ نے سکوت اختیار فرمایا (زبان مبارک سے کچھ ارشاد نہیں فرمایا) حضرت عمرؓ نے اس کو پڑھنا (اور حضور ﷺ کو سنانا) شروع کردیا اور رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہونے لگا (حضرت عمر ؓ پڑھتے رہے اور حضور ﷺ کے چہرہ مبارک کے تغیر سے بے خبر رہے) حضرت ابوبکرؓ نے (جو مجلس میں حاضر تھے حضرت عمرؓ کو ڈانٹا اور) فرمایا "ثكلتك الثواكل" حضور ﷺ کے چہرہ مبارک کی کیفیت تم نہیں دیکھ رہے ہو! تو حضرت عمرؓ نے حضور ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف نظر کی اور فورا بولے اللہ کی پناہ! اللہ کے غصہ سے اور اس کے رسول کے غصہ سے ہم (دل و جان سے) راضی ہیں اللہ کو اپنا رب مان کر اور اسلام کو اپنا دین بنا کر اور حضرت محمد کو نبی و رسول مان کر تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس خداوند عالم کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر (اللہ کے پیغمبر) موسی (اس دنیا میں) تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر انکی پیروی اختیار کر لو تو راہ حق اور صحیح راستہ سے بھٹک جاؤ گے اور گمراہ ہو جاؤ گے اور (سنو) اگر (اللہ کے نبی) موسی زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے (اور میری لائی ہوئی شریعت پر چلتے)۔ (مسند دارمی)

تشریح
"نسخة من التوراة" کا مطلب ہے تورات کے عربی ترجمہ کا کوئی جز اور کچھ اوراق۔ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمرؓ کو رسول اللہ ﷺ کی ناگواری اور چہرہ مبارک پر اس کے اثر کی طرف متوجہ کرتے ہوئے جو جملہ فرمایا "ثكلتك الثواكل"اس کا لفظی ترجمہ ہے رونے والیاں تجھ کو روئیں۔ جب اظہار ناراضی کے موقع پر یہ جملہ بولا جاتا ہے تو اس کا مطلب صرف ناراضی کا اظہار ہوتا ہے لفظی معنیٰ مراد نہیں ہوتے ہر زبان میں ایسے محاورے ہوتے ہیں ہماری اردو زبان میں مائیں اپنے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے کہتی ہیں (جس کے لفظی معنیٰ ہیں مرا ہوا) مقصد صرف ناراضی اور غصہ کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت عمر ؓ کے اس فعل پر حضور ﷺ کی ناراضی و ناگواری کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس سے یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ "خاتم الکتب" قرآن مجید اور "خاتم الانبیاء" حضرت محمد ﷺ کی ہدایت و تعلیم کے بعد بھی تورات یا کسی قدیمی صحیفہ سے روشنی اور رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت رہتی ہے حالانکہ قرآن اور تعلیم محمدی نے معرفت الہی اور ہدایت کے باب میں ہر دوسری چیز سے مستغنی کردیا ہے اگلی کتابوں اور انبیاء سابقین کے صحیفوں میں جو ایسے حقائق اور مضامین واحکام تھے جن کی بنی آدم کو ہمیشہ ضرورت رہے گی وہ سب قرآن مجید میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ "مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ" جو قرآن پاک کی صفت ہے اسکا مطلب یہی ہے۔ نیز تورات اور دوسرے اگلے صحیفوں کا دور ختم ہو چکا ہے۔ نزول قرآن اور بعثت محمدی کے بعد نجات اور رضائے الہی کا حصول، انہی کے اتباع پر موقوف ہے، اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے آپ نے قسم کھا کر فرمایا اگر بالفرض آج صاحب تورات موسی علیہ سلام زندہ ہوکر اس دنیا میں تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے اور میری لائی ہوئی ہدایت و تعلیم کو چھوڑ کے ان کی پیروی اختیار کر لو تو راہ یاب نہیں ہوگے بلکہ گمراہ اور راہ حق سے دور ہو جاؤ گے۔ اس حقیقت پر اور زیادہ روشنی ڈالتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا۔ اگر آج حضرت موسی علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت و رسالت کا یہ دور پاتے تو وہ خود بھی اسی ہدایت الہی اور اسی شریعت کا اتباع کرتے جو میرے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف سے آئی ہے اور اس طرح میری اقتداء اور میری پیروی کرتے۔ حضرت عمر ؓ چوں کہ آپ ﷺ کے اخص الخواص اصحاب میں سے تھے اس لیے ان کا یہ ذرا سی لغزش بھی حضور ﷺ کے لئے ناگواری کا باعث ہوئی؂ جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے
Top