معارف الحدیث - کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ - حدیث نمبر 1903
عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الدِّيْنَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ. وَهُمُ الَّذِيْنَ يُصْلِحُوْنَ مَا أَفْسَدَ النَّاسَ مِنْ بَعْدِىْ مِنْ سُنَّتِيْ. (رواه الترمذى)
احیاء سنت اور امت کی دینی اصلاح کی جدو جہد
حضرت عمرو بن عوف ؓٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دین (اسلام) جب شروع ہوا تو وہ غریب (یعنی لوگوں کے لئے اجنبی اور کسمپرسی کی حالت میں) تھا، بس شادمانی ہو غرباء کیلئے اور (غرباء سے مراد) وہ لوگ ہیں جو اس فساد اور بگاڑ کی اصلاح کی کوشش کریں گے جو میرے بعد میری سنت (اور میرے طریقوں) میں لوگ پیدا کریں گے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
ہماری اردو زبان میں تو غریب نادار اور مفلس آدمی کو کہا جانے لگا ہے لیکن اس لفظ کے اصل معنیٰ ایسے پردیسی کے ہیں جس کا کوئی شناسا اور پرسان حال نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ جب اسلام کی دعوت کا آغاز ہوا تھا اور اللہ تعالی کے حکم سے آپ ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے اسلام پیش کیا تھا تو اس کی تعلیم، اس کے عقائد، اس کے اعمال اور اس کے نظام زندگی لوگوں کے لیے بالکل نامانوس اور اجنبی تھے اور وہ اس وقت ایسے غریب الوطن پردیسی کی طرح تھا جس کا کوئی جاننے پہچاننے والا اور کوئی اسکی بات پوچھنے والا نہ ہو۔ پھر رفتہ رفتہ یہ صورتحال بدلتی رہی لوگ اس سے مانوس ہوتے رہے اور اس کو اپناتے رہے یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ پہلے مدینہ منورہ کے لوگوں نے اجتماعی طور پر اس کو سینے سے لگایا اس کے بعد جلدی ہی قریبا پورے جزیرۃالعرب نے اس کو اپنا لیا پھر دنیا کے دوسرے ملکوں نے بھی اس کو خوش آمدید کہا اور اس کو عام مقبولیت حاصل ہوئی لیکن جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ پر منکشف کیا گیا تھا کہ جس طرح اگلی امتوں میں بگاڑ آیا آپ کی امت میں بھی آئے گا اور اس کی غالب اکثریت گمراہانہ رسوم اور غلط طور طریقوں کو اپنالے گی، اور اصل اسلام جس کی دعوت و تعلیم آپ نے دی تھی بہت ہی کم لوگوں میں رہ جائے گی اور اپنے ابتدائی دور کی طرح پھر وہ غریب الوطن پردیسی کی طرح ہو جائے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں امت کو اس انقلاب حال کی اطلاع اور آگاہی دی ہے اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا ہے کہ امت کے اس عمومی فساد کے وقت اصل اسلام پر قائم رہنے والے جو وفادار امتی اس فساد و بگاڑ کی اصلاح کی کوشش اور بگڑی ہوئی امّت کو اصل اسلام کی طرف لانے کی جدوجہد کرینگے ان کو شاباش اور مبارکباد۔ اس حدیث شریف میں دین کے ایسے وفادار خادموں کو رسول اللہ ﷺ نے غرباء کا خطاب دیا ہے۔ بلاشبہ ہمارے اس زمانے میں مسلمان کہلانے والی امت کا جو حال ہے اس پر یہ حدیث پوری طرح منطبق ہے امت کی غالب اکثریت دین کی بنیادی تعلیمات سے بے خبر قبر پرستی جیسے صریح شرک میں مبتلا اور نماز و زکوۃ جیسے بنیادی ارکان کی بھی تارک ہے دن رات کے معاملات خرید و فروخت وغیرہ میں حلال و حرام کی کوئی پروا نہیں ہے جھوٹے مقدمات اور جھوٹی گواہی جیسے موجب لعنت گناہوں سے صرف اللہ و رسول ﷺ کے حکم کی وجہ سے پرہیز کرنے والے بہت ہی کم رہ گئے ہیں علماء اور درویشوں کی بڑی تعداد میں نفس پرستی اور حب جاہ و مال کی پیدا کی ہوئی وہ ساری خرابیاں دیکھی جا سکتی ہیں جو یہود و نصاریٰ کے احبار و رہبان میں پیدا ہو گئی تھیں اور جن کی وجہ سے ان پر خدا کی لعنت ہو ئی ایسے فساد عام کے وقت میں جو باتوفیق بندے اصل اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و سنت سے وابستہ رہیں اور امت کی اصلاح کی فکر و کوشش میں حصہ لیں وہ لشکر محمدی کے وفادار سپاہی ہیں، انہی کو اس حدیث میں غرباء کہا گیا ہے) اور زبان نبوت سے ان کو شاباشی اور مبارکباد دی گئی ہے اللہ تعالی اس عاجز راقم سطور کو اور اس کے پڑھنے والوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اپنے کو اس زمرے میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔ الَلَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ وَاحْشُرْنَا فِىْ زُمْرَتِهِمْ
Top