معارف الحدیث - کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ - حدیث نمبر 1904
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ قَدِمَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَأْبُرُونَ النَّخْلَ فَقَالَ: مَا تَصْنَعُونَ. قَالُوا كُنَّا نَصْنَعُهُ قَالَ: لَعَلَّكُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ خَيْرًا. فَتَرَكُوهُ فَنَقَصَتْ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيٍ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ. (رواه مسلم)
دنیوی معاملات میں حضورﷺ کی ذاتی رائے کی حیثیت
حضرت رافع بن خدیج ؓٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ اہل مدینہ کھجور کے درختوں بر تابیر کا عمل کرتے ہیں آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ آپ لوگ یہ کیا کرتے ہیں؟ (اور کس واسطے کرتے ہیں؟) انہوں نے عرض کیا کہ یہ ہم پہلے سے کرتے آئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا شاید کہ تم اسکو نہ کرو تو بہتر ہو تو انہوں نے اس کو ترک کر دیا تو پیداوار کم ہوئی تو لوگوں نے حضور ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں (اپنی فطرت کے لحاظ سے) بس ایک بشر ہوں، جب میں تم کو دین کی لائن کی کسی بات کا حکم کرو تو اس کو لازم پکڑو (اور اس پر عمل کرو) اور جب میں اپنی ذاتی رائے سے کسی بات کے لئے تم سے کہوں تو میں بس ایک بشر ہوں۔ (مسلم)

تشریح
اللہ کے پیغمبر جو بھی حکم نبی و رسول ہونے کی حیثیت سے دی وہ واجب الاطاعت ہیں خواہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے، عبادات سے ہو یا معاملات سے، اخلاق سے ہو یا معاشرت سے، یا زندگی کہ کسی بھی شعبہ سے..... لیکن کبھی کبھی اللہ کی پیغمبر کسی خالص دنیوی معاملہ میں اپنی ذاتی رائے سے بھی مشورہ دیتے ہیں تو اس کے بارے میں خود رسول اللہ ﷺ نے واضح فرما دیا ہے کہ وہ امت کے لئے واجب اطاعت نہیں ہیں بلکہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح ہو اور اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے مندرجہ ذیل حدیث کا مدعا یہی ہے۔ تشریح ..... مدینہ طیبہ کھجور کی پیداوار کا خاص علاقہ تھا (اور اب بھی ایسا ہی ہے) رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرما کر وہاں پہنچے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ کھجور کے درختوں میں ایک درخت کو نر اور دوسرے کو مادہ قرار دے کر ان کے شگوفوں میں ایک خاص طریقہ سے پیوند کاری کرتے ہیں جس کو تابیر کہا جاتا تھا چونکہ مکہ معظمہ اور اس کے اطراف میں کھجور پیدا نہیں ہوتی اس لیے یہ تابیر کا عمل آپ ﷺ کے لیے ایک نئی بات تھی آپ ﷺ نے ان لوگوں نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہ اب لوگ کیا کرتے ہیں اور کس لئے کرتے ہیں؟ وہ اس کی کوئی خاص حکمت اور نافعیت نہیں بتلا سکے صرف یہ کہا کہ پہلے سے ہی یہ ہوتا رہا ہے یعنی ہم نے اپنے باپ دادا کو کرتے دیکھا تھا اس لئے ہم بھی کرتے ہیں آپ ﷺ نے اس کو دور جاہلیت کی دوسری بہت سی لغو باتوں کی طرح کا ایک فضول اور بے فائدہ کام سمجھا اور ارشاد فرمایا کہ شاید اسکو نہ کروں تو بہتر ہو۔ ان لوگوں نے آپ ﷺ سے یہ سن کر اس عمل تابیر کو روک دیا۔ لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ اس فصل میں کھجور کی پیداوار گھٹ گئی تو حضور ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا۔ "اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ الخ" یعنی میں اپنی ذات سے ایک بشر ہوں میری ہر بات دینی ہدایت اور وحی کی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ ایک بشر کی حیثیت سے بھی بات کرتا ہوں تو جب میں نبی و رسول کی حیثیت سے دین کی لائن کی کسی بات کا حکم دوں تو واجب التعمیل ہے اور جب میں کسی دنیاوی معاملہ میں اپنی ذاتی رائے سے کچھ کہوں تو اس کی حیثیت ایک بشر کی رائے کی ہے اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے اور عمل تابیر کے بارے میں جو بات میں نے کہی تھی وہ میرا ذاتی خیال اور میری ذاتی رائے تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سی چیزوں میں اللہ تعالی نے عجیب و غریب خاصیت رکھ دی ہیں جن کا پورا علم بھی بس اسی کو ہے تابیر کے عمل میں اللہ تعالی نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ اسکی وجہ سے پیداوار زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو کچھ نہیں بتلایا گیا تھا اور آپ ﷺ کو اس کی ضرورت بھی نہیں تھی آپ ﷺ باغبانی کے رموز بتلانے کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ عالم انسانی کی ہدایت اور اس کو رضائے الہی اور جنت کا راستہ دکھلانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اس کے لیے جس علم کی ضرورت تھی وہ آپ کو بھرپور عطا فرمایا گیا تھا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ خیال اور عقیدہ غلط ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو دنیا کی ہر بات اور ہر چیز کا علم تھا جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ حضور ﷺ کے عالی سے ناآشنا ہیں۔ اس حدیث پر "کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ" ختم ہوئی۔
Top