معارف الحدیث - دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر - حدیث نمبر 1905
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ. (رواه مسلم)
ہدایت و ارشاد اور دعوت الی الخیر کا اجر و ثواب
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی نیک کام کی طرف (کسی بندے کی) رہنمائی کی تو اس کو اس نیک کام کے کرنے والے بندے کے اجر کے برابر ہی اجر ملے گا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اللہ تعالی کی طرف سے انبیاء علیہم سلام اس لئے بھیجے جاتے تھے کہ اس کے بندوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دیں پسندیدہ اعمال و اخلاق اور ہر طرح کے اعمال خیر کی طرف ان کی رہنمائی کرے اور ہر نوع کی برائیوں سے ان کو روکنے اور بچانے کی کوشش کریں تاکہ دنیا و آخرت میں وہ اللہ کی رحمت اور رضا کے مستحق ہوں اور اس کے غضب و عذاب سے محفوظ رہیں اسی کا جامعہ عنوان "دعوت الی الخیر، امربالمعروف ونہی عن المنکر " ہے۔ جب خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیاگیا تو قیامت تک کے لیے اس پیغمبرانہ کام کی پوری ذمہ داری آپ کی امت کے سپرد کی گئی قرآن پاک میں فرمایا گیا۔ وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران 104:3) ترجمہ: اور لازم ہے کہ تم میں ایک ایسی امت ہو جو (لوگوں کو) دعوت دے خیر اور بھلائی کی اور حکم کرے معروف (اچھی باتوں) کا اور روکے ہر طرح کی برائیوں سے اور وہی بندے فلاح یاب ہوں گے (جو یہ فریضہ ادا کریں گے) پھر چند ہی آیتوں کے بعد اس صورت میں فرمایا گیا ہے: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ (آل عمران 110:3) ترجمہ: اے پیروان محمد تم (تمام امتوں میں) وہ بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لئے ظہور میں لائی گئی ہے تمہارا کام (اور تمہاری ذمہ داری) یہ ہے کہ نیکی کا حکم دیتے ہو برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو (اور ایمان والی زندگی گزارتے ہو)۔ بہرحال سلسلہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد اس پیغمبرانہ کام کی پوری ذمہ داری ہمیشہ کے لئے امت محمدیہ پر عائد کر دی گئی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں وضاحت فرمائی ہے کہ آپ ﷺ کے جو امتی اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا کریں گے وہ اللہ تعالی کے کیسے عظیم انعامات کے مستحق ہونگے اور جو اس میں کوتاہی کرینگے وہ اپنے نفسوں پر کتنا بڑا ظلم کریں گے اور ان کا انجام اور حشر کیا ہوگا۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی مندرجہ ذیل حدیث پڑھی جائیں۔ تشریح ..... اس حدیث کا مطلب و مدعا اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مثلا ایک شخص نماز کا عادی نہیں تھا آپ کی دعوت ترغیب اور محنت کے نتیجہ میں وہ پابندی سے نماز پڑھنے لگا وہ قرآن پاک کی تلاوت و ذکر اللہ سے غافل تھا آپ کی دعوت اور کوشش کے نتیجے میں وہ قرآن پاک کی روزانہ تلاوت کرنے لگا ذکر و تسبیح کا عادی ہو گیا وہ زکوۃ ادا نہیں کرتا تھا آپ کی مخلصانہ دعوت وتبلیغ کے اثر سے وہ زکوۃ بھی ادا کرنے لگا اسی طرح اور بھی اعمال صالحہ کا پابند ہوگیا۔ تو اس کو عمر بھر کی نمازوں ذکر و تلاوت زکوۃ و صدقات اور دیگر اعمال صالحہ کا جتنا اجر و ثواب آخرت میں ملے گا (اس حدیث کی بشارت کے مطابق) اللہ تعالی اتنا ہی اجر و ثواب بطور انعام کے اپنے لامحدود خزانہ کرم سے اس داعی الخیر بندے کو بھی عطا فرمائے گا جس کی دعوت و تبلیغ نے اس کو ان اعمال صالحہ پر آمادہ کیا اور عادی بنایا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس راستہ سے جتنا اجر و ثواب اور آخرت میں جو درجہ حاصل کیا جاسکتا ہے وہ کسی دوسرے راستہ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بزرگان دین کی اصطلاح میں یہ طریق نبوت کا سلوک بشرطیکہ خالصا لوجہ اللہ صرف رضائے الہی کی طلب میں ہوں۔
Top