معارف الحدیث - دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر - حدیث نمبر 1909
عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيْقِ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الآيَةَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُغَيِّرُوا يُوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ. (رواه ابن ماجه والترمذى)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اور اس میں کوتاہی پر سخت تہدید
حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ قرآن پاک کی یہ آیت پڑھتے ہو "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ" (اے ایمان والو تم پر لازم ہے اپنے نفسوں کی فکر تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے گمراہ ہونے والے لوگ جب تم راہ ہدایت پر ہو) (حضرت صدیق اکبر نے اس آیت کا حوالہ دے کر فرمایا کہ کسی کو اس آیت سے غلط فہمی نہ ہو) میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ شریعت کے خلاف کام ہوتے دیکھیں اور اس کی تغییر و اصلاح کے لئے کچھ نہ کریں تو قریبی خطرہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان سب ہی پر عذاب آجائے۔ (سنن ابن ماجہ جامع ترمذی)

تشریح
سورہ مائدہ کی یہ 125 ایک سو پچسویں آیت ہے جس کا حوالہ صدیق اکبر ؓٗ نے دیا ہے اس آیت کے ظاہری الفاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ اہل ایمان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ اس کی فکر کریں کہ وہ خود اللہ اور رسول کے بتلائے ہوئے راستہ پر چلتے رہیں دوسروں کی اصلاح و ہدایت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اگر دوسرے لوگ اللہ و رسول کے احکام کے خلاف چل رہے ہیں ہم کو ان کی گمراہی اور غلط کاری سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ صدیق اکبر ؓٗ نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے فرمایا کہ آیت سے ایسا سمجھنا غلط ہوگا میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ جب لوگوں کا رویہ یہ ہو جائے کہ دوسرے لوگوں کو خلاف شریعت کام کرتے دیکھے اور ان کی اصلاح کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو اس بات کا قریبی خطرہ ہوگا کہ خدا کی طرف سے ایسا عذاب آئے جو سب ہی کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ صدیق اکبر ؓ کی اس حدیث اور قرآن و حدیث کے دوسرے نصوص کی روشنی میں سورہ مائدہ کی اس آیت کا مفاد اور مدعی یہ ہوگا کہ اے اہل ایمان جب تم راہ ہدایت پر ہو اللہ و رسول کے احکام کی تعمیل کر رہے ہو (جس میں امر بالمعروف نہی عن المنکر اور بقدر امکان بندگان خدا کی اصلاح و ہدایت کی کوشش بھی شامل ہے) تو اس کے بعد جو ناخدا ترس لوگ ہدایت قبول نہ کریں اور گمراہی کی حالت میں رہیں تو اس کی اس گمراہی اور معاشیت کوشی کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں تم عند اللہ بری الذمہ ہو۔ (حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث "مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ الحديث" اس سلسلہ معارف الحدیث کی کتاب الایمان میں درج ہو چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص کوئی خلاف شریعت کام ہوتا دیکھے تو اگر اس کے لئے اس کا امکان ہے کہ طاقت استعمال کرکے اس کو روک دے تو ایسا ہی کرے اور اگر اس کی استطاعت اور قدرت نہیں ہے تو زبان ہی سے نصیحت اور اظہار ناراضی کرے اگر اس کی بھی استطاعت اور قدرت نہیں ہے تو دل ہی سے اس کو برا سمجھے اور دل میں اس کے خلاف جذبہ رکھے)
Top