معارف الحدیث - دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر - حدیث نمبر 1913
عَنِ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً، فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا، فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلاَهَا، فَتَأَذَّوْا بِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِينَةِ، فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْ بِي، ولابد لِي مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ. (رواه البخارى)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاکید اور اس میں کوتاہی پر سخت تہدید
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مثال ان لوگوں کی جو اللہ کی حدود اور اس کے احکام کے بارے میں مداہنت (یعنی سہل انگاری اور ڈھیلے پن) سے کام لیتے ہیں (روک ٹوک نہیں کرتے) اور ایسے لوگوں کی جو خود اللہ کی حدود کو پامال اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں ایک ایسے گروہ کی سی مثال ہے جو باہم قرعہ اندازی کرکے ایک کشتی پر سوار ہوا تو کچھ لوگوں نے کشتی کے نیچے کے درجہ میں جگہ پائی اور کچھ نے اوپر والے درجہ میں۔ تو نیچے کے درجہ والا آدمی پانی لے کر اوپر کے درجہ والوں پر سے گزرتا تھا اس سے انہوں نے تکلیف محسوس کی (اور اس پر ناراضی کا اظہار کیا) تو نیچے کے درجے والے نے کلہاڑا لیا اور لگا صاف کرنے کشتی کے نیچے کے حصے میں (تاکہ نیچے ہی سے دریا سے براہ راست پانی حاصل کرلے اور پانی کے لئے اوپر آنا جانا نہ پڑے) تو اوپر کے درجہ والے اس کے پاس آئے اور کہا کے تم کو کیا ہو گیا ہے؟ (یہ کیا کر رہے ہیں؟) اس نے کہا کہ (پانی کے لئے میرے آنے جانے سے) تم کو تکلیف ہوئی (زندگی کی) ناگزیر ضرورت ہے (میں دریا سے پانی حاصل کرنے کے لئے یہ سوراخ کر رہا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) تو اگر یہ کشتی والے اس آدمی کا ہاتھ پکڑ لیں (اور اس کو کشتی میں سوراخ نہ کرنے دیں) تو اس کو بھی ہلاکت سے بچا لیں گے اور اپنے کو بھی اور اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں گے (اور کشتی میں سوراخ کرنے دینگے) تو اس کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ اور اپنے کو بھی (سب ہی غرقاب ہو جائیں گے)۔ (صحیح بخاری)

تشریح
حدیث کی بقدر ضرورت تشریح ترجمہ ہی کے ضمن میں کردی گئی ہے بڑی ہی عام فہم اور سبق آموز مثال ہے۔ حدیث کا پیغام یہ ہے کہ جب کسی بستی یا کسی گروہ میں اللہ کی حدود پامال کی جاتی ہوں اور اس کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی ہو وہ بد اعمالیاں ہوتی ہوں جو خداوند ذوالجلال کے قہر و عذاب کو دعوت دیتی ہیں تو اگر ان میں کے اچھے اور نیک لوگ اصلاح و ہدایت کی کوئی کوشش نہیں کریں گے تو جب خدا کا عذاب نازل ہوگا تو یہ بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے اور انکی ذاتی نیکی اور پرہیزگاری ان کو نہ بچا سکے گی۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے "وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ" (الانفال نمبر 25) (اور اس عذاب سے ڈرو اور بچنے کی کوشش کرو جو صرف ظالموں، مجرموں ہی پر نہیں آئے گا اور خود جان لو کہ اللہ کی سزا بڑی ہی سخت ہے)
Top