معارف الحدیث - دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر - حدیث نمبر 1914
عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ فِي قوله تعالى {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} قَالَ أَمَا وَاللَّهِ سَأَلْتَ عَنْهَا خَبِيرًا سَأَلْتُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: بَلِ ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنَاهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ حَتَّى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَهَوًى مُتَّبَعًا وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ فَعَلَيْكَ بِخَاصَّةِ نَفْسِكَ وَدَعِ الْعَوَامَّ فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلُ الْقَبْضِ عَلَى الْجَمْرِ لِلْعَامِلِ فِيهِنَّ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلاً يَعْمَلُونَ مِثْلَ عَمَلِكُمْ. (رواه الترمذى)
کن حالات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری ثابت ہوجاتی ہے
حضرت ابو ثعلبہ خشنی ؓ سے روایت ہے انہوں نے اللہ تعالی کے ارشاد "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ" کے بارے میں (ایک صاحب کے سوال کے جواب میں) فرمایا کہ میں نے اس آیت کے بارے میں اس ہستی سے پوچھا تھا جو (اس کے مطلب اور مدعی سے اور اللہ کے حکم سے) سب سے زیادہ باخبر تھی (یعنی) رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا (اس آیت سے غلط فہمی میں نہ پڑو) بلکہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر برابر کرتے رہو یہاں تک کہ جب (وہ وقت آ جائے کہ) تم دیکھو کہ بخل اور دولت اندوزی کے جذبہ کی اطاعت کی جاتی ہے اور (اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلہ میں) اپنی نفسانی خواہشات کا اتباع کیا جاتا ہے اور (آخرت کو فراموش کرکے) بس دنیا ہی کو مقصود بنا لیا گیا ہے اور ہر شخص خود رائی اور خود بینی کا مریض ہے (تو جب عام لوگوں کی حالت یہ ہو جائے) تو اس وقت بس اپنی ذات ہی کی فکر کرو اور عوام کو چھوڑو (ان کا معاملہ خداکے حوالہ کردو) کیونکہ تمہارے بعد میں ایسا دور بھی آئے گا کہ صبر اور ثابت قدمی (کے ساتھ دین پر قائم رہنا اور شریعت پر چلنا) ایسا (مشکل اور صبر آزما) ہوگاجیسا ہاتھ میں انگارہ لے لینا ان دنوں میں شریعت پر عمل کرنے والے پچاس آدمیوں کے برابر اجر و ثواب ملے گا (جامع ترمذی)

تشریح
حضرت ابو ثعلبہ خشنی ؓ سے ایک تابعی ابو امیہ شعبانی نے سورہ مائدہ کی اس آیت نمبر 125 کے متعلق جس کے بارے میں حضرت صدیق اکبر ؓ کا ارشاد اوپر گزر چکا ہے سوال کیا تھا تو انھوں نے یہ جواب دیا کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا (کیونکہ اس کے ظاہری الفاظ سے یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ اگر ہم خود اللہ و رسول کی ہدایت کے مطابق چل رہے ہیں تو دوسرے لوگوں کے دین کی فکر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہماری ذمہ داری نہیں ہے) تو رسول اللہ ﷺ نے وہ جواب ارشاد فرمایا جو حدیث میں مذکور ہوا جس کا حاصل یہ ہے کہ اپنے دین کی فکر کے ساتھ دوسرے بندگان خدا کے دین کی فکر اور اس سلسلہ میں امربالمعروف ونہی عن المنکر بھی دینی فریضہ اور خداوندی مطالبہ ہے اس لیے اس کے کو برابر کرتے رہو۔ ہاں جب امت کا حال یہ ہو جائے کہ بخل و کنجوسی اس کا مزاج بن جائے اور دولت کی پوجا ہونے لگے اور اللہ و رسول کے احکام کے بجائے بس خواہشات نفس کا اتباع کیا جانے لگے اور آخرت کو بھلا کر دنیا ہی کو مقصود بنا لیا جائے اور خود بینی اور خود رائی کی وبا عام ہوجائے تو اس بگڑی ہوئی فضا میں چونکہ امر بالمعروف نہی عن المنکر کی تاثیر و افادیت اور عوام کی اصلاح پذیری کی امید نہیں ہوتی اس لئے چاہیے کہ بندہ عوام کی فکر چھوڑ کے بس اپنی ہی اصلاح اور معصیت سے حفاظت کی فکر کرے۔ آخر میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ بعد میں ایسے دور بھی آئیں گے جب دین پر قائم رہنا اور اللہ و رسول کے احکام پر چلنا ہاتھ میں آگ لینے کی طرح تکلیف دہ اور صبر آزما ہو گا۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں خود دین پر قائم رہنا ہی بہت بڑا جہاد ہوگا اور دوسروں کی اصلاح کی فکر اور اس سلسلہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری باقی نہیں رہے گی۔ اور ایسی ناموافق فضا اور سخت حالات میں اللہ و رسول کے احکام پر صبروثابت قدمی کے ساتھ عمل کرنے والوں کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کو پچاس پچاس تمہارے جیسے عمل کرنے والوں کی برابر اجر و ثواب ملے گا۔
Top