معارف الحدیث - دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر - حدیث نمبر 1915
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ. فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِيدٍ فَقَالَ أَعِدْهَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَفَعَلَ ثُمَّ قَالَ: وَأُخْرَى يُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ. قَالَ وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. (رواه مسلم)
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک دن) ارشاد فرمایا کہ جس بندے نے دل سے برضا و رغبت اللہ تعالی کو اپنا مالک و پروردگار اسلام کو اپنا دین اور محمد (ﷺ) کو اللہ کا رسول و ہادی مان لیا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی (رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ بشارت سن کر حدیث کے راوی) ابو سعید خدریؓ کو بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے (حضور ﷺ سے) عرض کیا کہ یارسول اللہ یہی بات پھر ارشاد فرما دیں! چنانچہ آپ ﷺ نے پھر وہی بعد دوبارہ ارشاد فرمائی (اسی کے ساتھ مزید یہ بھی) آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک اور دینی عمل ہے (جو اللہ تعالی کے نزدیک اتنا عظیم ہے کہ) اس عمل کرنے والے کو اللہ تعالی جنت میں سو درجے بلند فرمائے گے جن میں سے دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کا سا فاصلہ علیہ (یہ سن کر) ابو سعید خدریؓ نے عرض کیا کہ حضرت وہ کون سا عمل ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ (صحیح مسلم)

تشریح
جیسا کہ معلوم ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام نبی و رسول اسی لئے بھیجے گئے کہ اس کے بندوں کو دین حق یعنی زندگی کے اس خدا پرستانا اور شریفانہ طریقہ کی دعوت و تعلیم دیں اور اس پر چلانے کی کوشش کریں جو ان کے خالق و پروردگار نے ان کے لئے مقرر کیا ہے اور جس میں اس کی دنیا و آخرت کی سکول آف صلاح و فلاح ہے اور جس پر چلنے والوں کیلئے خدا کی رضا ورحمت اور جنت کی ضمانت ہے۔ قرآن مجید کا بیان اور ہمارا ایمان ہے کہ سب ہیں انبیاء و رسل علیہم السلام نے اپنے اپنے دور اور دائرہ میں اس کی دعوت دی اور اسی کیلئے جدوجہد کی۔ لیکن قریبا سب ہی کے ساتھ ایسا ہوا کہ ان کے زمانے اور ان کی قوم کے شریر و بد نفس لوگوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی دعوت حق کو قبول نہیں کیا بلکہ شدید مخالفت و مزاحمت کی اور دوسروں کا بھی راستہ روکا اور اگر ان کے ہاتھ میں طاقت ہوئی تو انہوں نے اللہ کے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو ظلم و جبر کا بھی نشانہ بنایا بلاشبہ انبیاء علیہم السلام اور ان کی دعوت حق کے یہ دشمن انسانوں اور انسانیت کے حق میں سانپوں اور اژدہوں سے بھی زیادہ زہریلے اور خطرناک تھے اس لیے اکثر ایساہوا کہ ایسے لوگوں اور ایسی قوموں پر خدا کا عذاب نازل ہوا اور صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا اور وہ اسی کے مستحق تھے "وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّـهُ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ" قرآن مجید میں حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے شریر و بد نفس مکذبین کے یہ حالات تفصیل سے بیان فرمائے گئے ہیں۔ سب سے آخر میں خاتم النبیین سیدنا حضرت محمد ﷺ مبعوث ہوئے انبیائے سابقین کی طرح آپ نے بھی قوم کو دین حق کی دعوت دی کچھ نیک فطرت بندگان خدا نہیں آپ کی دعوت کو قبول کیا اور کفر و شرک فسق و فجور اور ظلم و عدوان کی جاہلی زندگی چھوڑ کے وہ خدا خدا پرستانہ پاکیزہ زندگی اختیار کرلی جس کی آپ دعوت دیتے تھے لیکن قوم کے اکثر بڑوں اور سرداروں نے شدید مخالفت اور مزاحمت کا رویہ اختیار کیا خود رسول اللہ ﷺ کو بھی سے ستایا اور آپ پر ایمان لانے والوں پر خاص کر بےچارے غرباء اور ضعفاء پر مظالم و مصائب کے پہاڑ توڑے مکہ کے یہ اشرار ابو جہل ابو لہب وغیرہ بلاشبہ اس کے مستحق تھے کہ اگلی امتوں کے معذین کی طرح ان پر بھی آسمانی عذاب آتا اور صفحہ ہستی کو ان کے وجود سے پاک کر دیا جاتا لیکن رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے سید المرسلین و خاتم النبیین کے علاوہ رحمت للعالمین بنا کر بھی بھیجا تھا اور اس بنا پر آپ ﷺ کے لئے طے فرما دیا گیا تھا کہ آپ کے مخالفین و مکذبین ین اور ستانے والے خبیث ترین دشمنوں پر بھی آسمانی عذاب نازل نہیں کیا جائے گا اور بجائے اسکے آپ پر ایمان لانے والوں ہی کے ذریعہ ان کا زور توڑا جائے گا اور دین حق کی دعوت کا راستہ صاف کیا جائے گا اور انہی کے ہاتھوں سے ان مجرمین کو سزا دلوائی جائے گی اور اس عمل میں ان کی حیثیت اللہ کی لشکریوں اور خداوندی کارندوں کی ہوگی چنانچہ جب وہ وقت آگیا جو اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لیے مقرر تھا تو نبوت کے تیرہویں سال رسول اللہ ﷺ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو مکہ معظمہ سے ہجرت کا حکم ہوا یہ ہجرت دراصل دین حق کی دعوت کے اس دوسرے مرحلہ کی ابتدا تھی جس کیلئے ایمان لانے والے حاملین دعوت کو اللہ تعالی کا حکم تھا کہ وہ مزاحمت کرنے والے اور اہل ایمان پر ظلم و ستم کرنے والے اشرار ناہنجار کا زور توڑنے کے لیے اور دعوت حق کا راستہ صاف کرنے کے لیے حسب ضرورت اپنی جان اور اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور میدان میں آجائیں اسی کا عنوان جہاد و قتال فی سبیل اللہ ہے اور اس راستہ میں اپنی جان قربان کردینے کا نام شہادت ہے۔ ناظرین کرام نے اس تمہید سے سمجھ لیا ہوگا کہ کفر و اہل کفر کے خلاف اہل ایمان کی مسلح جدوجہد (ہوا اقدامی ہوں یا مدافعانہ) اللہ و رسول کے نزدیک اور شریعت کی زبان میں جب ہی جہاد و قتال فی سبیل اللہ ہے جبکہ اس کا مقصد دین حق کی حفاظت و نصرت یا اس کے لیے راستہ صاف کرنا اور اللہ کے بندوں کو خدا کی رحمت کا مستحق اور جنتی بنانا ہو۔ لیکن اگر جنگ اور طاقت آزمائی کا مقصد ملک و مال ہو یا اپنی قوم یا وطن کا جھنڈا اونچا رکھنا ہو تو وہ ہرگز جہاد و قتال فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ سطور بالا میں جو کچھ عرض کیا گیا اس سے ناظرین کو یہ بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت میں جہاد کا حکم و قانون اس لحاظ سے بڑی رحمت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق کی تکذیب اور مزاحمت کرنے والوں پر جس طرح کے آسمانی عذاب پہلے آیا کرتے تھے اب قیامت تک کبھی نہیں آئیں گے گویا جہاد کسی درجہ میں اس کا بدل ہے۔ واللہ اعلم۔ اس تمہید کے بعد رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات پڑھے جائیں جن میں مختلف عنوانات سے جہاد اور شہادت کی سبیل اللّٰہ کے فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ تشریح ..... ظاہر ہے کہ جو شخص بشرح صدر اور دل و جان سے اللہ تعالی کو اپنا رب اور سیدنا حضرت محمد ﷺ کو رسول برحق اور اسلام کو اپنا دین بنا لے گا اس کی زندگی بھی اسلامی ہو گی اور اپنے رب کا فرمانبردار اور رسول پاک صلی اللہ ھو علیہ وسلم کا تابعدار ہوگا آپ ﷺ نے ایسے بندوں کو بشارت سنائی کے ان کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے جنت کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جنت ان کے لئے واجب ہو چکی ہے حضرت ابو سعید خدری کو حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ بشارت سن کر بے حد خوشی ہوئی (غالبا اس لئے کہ اللہ تعالی کے فضل کرم سے یہ دولت ان کو نصیب تھی) انہوں نے (اسی وجد و مسرت کی حالت میں) حضور ﷺ سے درخواست کی کہ حضرت اسکو دوبارہ ارشاد فرما دیں آپ ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرما دیا اور اس کے ساتھ مزید ارشاد فرمایا کہ جس کے عامل کو اللہ تعالیٰ جنت میں سو (100) درجے بلند فرمائیں گے حضرت ابوسعید کے یہ دریافت کرنے پر کہ وہ کون سا عمل ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ۔ آپ ﷺ نے جواب میں تین دفع ارشاد فرمایا "الْجِهَاد‘ فِىْ سَبِيْلِ اللهِ" اس سے ہر صاحب ذوق سمجھ سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک میں جہاد کی کیسی عظمت اور کیسی رغبت و محبت تھی آگے درج ہونے والی حدیث سے یہ بات اور زیادہ واضح ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ آخرت اور جنت و دوزخ کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کی پوری حقیقت وہاں پہنچ کر ہی معلوم ہوگی ہماری اس دنیا میں اس کی کوئی نظیر اور مثال بھی موجود نہیں ہے..... ہمیں بس دل سے مان لینا اور یقین کر لینا چاہئے کہ اللہ و رسول نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ برحق ہے اور جب وقت آئے گا انشاءاللہ اس کو ہم بھی دیکھ لیں گے۔
Top