معارف الحدیث - دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر - حدیث نمبر 1921
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ فَدَنَا مِنَ الْمَدِينَةِ فَقَالَ: إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلاَّ كَانُوا مَعَكُمْ. قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ قَالَ: وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ. (رواه البخارى ورواه مسلم عن جابر)
فی سبیل اللہ جہاد و قتال اور شہادت
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے جب واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس پورے سفر میں تمہارے ساتھ رہے اور جب تم نے کسی وادی کو عبور کیا تو اس وقت بھی وہ تمہارے ساتھ ہے بعض رفقاء سفر نے عرض کیا کہ حضرت وہ مدینہ میں تھے (اور پھر بھی سفر میں ہمارے ساتھ رہے؟) آپ صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں وہ مدینہ ہی میں رہے کسی عذر اور مجبوری کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ سفر نہیں کر سکے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو غزوہ تبوک کے سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ جانا چاہتے تھے اور ان کا پکا ارادہ تھا لیکن کسی وقت معذوری اور مجبوری کی وجہ سے نہیں جاسکے تو چونکہ ان کی نیت حضور ﷺ کے ساتھ جانے کی تھی اس لئے اللہ تعالی کے دفتر میں وہ جانے والوں ہی میں لکھے گئے اس حدیث کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی "الا شركوكم فى الاخر" یعنی وہ مومنین مخلصین اپنی صادق نیت کی وجہ سے آج غزوہ تبوک کے اجر و ثواب میں تمہارے شریک اور حصہ دار قرار پائے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ کسی نیک عمل میں شرکت کی نیت رکھتا ہوں لیکن کسی معذوری اور مجبوری کی وجہ سے وہ بروقت شرکت نہ کر سکے تو اللہ تعالی اس کی نیت ہی پر عملی شرکت کا اجروثواب عطا فرمائیں گے۔
Top