معارف الحدیث - دعوت الی الخیر امربالمعروف نہی عن المنکر - حدیث نمبر 1932
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ. قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ قَالَ: إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ. مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ. (رواه مسلم)
شہادت کے دائرہ کی وسعت
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک روز صحابہؓ کو مخاطب کرکے) فرمایا کہ تم لوگ اپنے میں کس کو "شہید" شمار کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت (ہمارے نزدیک تو) جو بندہ راہ خدا میں قتل کیا گیا وہی شہید ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس صورت میں تو میری امت کے شہداء تھوڑے ہی ہونگے۔ (سنو!) جو بندہ راہ خدا میں شہید کیا گیا وہ شہید ہے، اور جس بندہ کا انتقال راہ خدا میں ہوا (یعنی جہاد کے سفر میں جس کو موت آ گئی) وہ بھی شہید ہے، اور جس بندہ کا طاعون میں انتقال ہوا وہ بھی شہید ہے، اور جس بندہ کا پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال ہوا (جیسے کہ ہیضہ، تخمہ، اسہال، استسقاء وغیرہ) وہ بھی شہید ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
پھر جس طرح جہاد کے مفہوم میں یہ وسعت ہے اور جہاد بالسیف میں محدود نہیں ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اطلاع دی ہے کہ شہادت کا دائرہ بھی وسیع ہے اور بہت سے وہ بندے بھی اللہ کے نزدیک شہیدوں میں شامل ہیں جو جہاد بالسیف اور قتال کے میدان میں اہل کفر و شرک کی تلواروں یا گولیوں سے شہید ہوتے بلکہ ان کی موت کا سبب کوئی ناگہانی حادثہ یا کوئی غیرمعمولی مرض ہوتا ہے۔ تشریح ..... واقعہ یہ ہے کہ حقیقی "شہید" تو وہی خوش نصیب بندے ہیں جو میدان جہاد میں اہل کفر و شرک کے ہاتھوں شہید ہوں (شریعت میں ان کے لیے خاص احکام ہیں مثلا یہ کہ ان کو غسل نہیں دیا جاتا اور وہ اپنے ان کپڑوں ہی میں دفن کیے جاتے ہیں جن میں وہ شہید ہوئے) لیکن اللہ تعالی کی رحمت نے بعض غیر معمولی امراض یا حادثوں سے مرنے والوں کو بھی آخرت میں شہید کا درجہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے جن میں سے کچھ کا ذکر اس حدیث میں اور بعض کہ آئندہ درج ہونے والی حدیثوں میں کیا گیا ہے امتیاز کے لیے پہلی قسم کے شہید کو "شہید حقیقی" اور دوسری قسم والوں کو "شہید حکمی" کہا جاتا ہے غسل اور کفن کے معاملہ میں ان کا حکم وہ نہیں ہے جو حقیقی شہداء کا ہے بلکہ عام اموات کی طرح ان کو غسل بھی دیا جائے گا اور کفن بھی۔
Top